نومبر1947 کوہندوڈوگرہ حکمران ہری سنگھ کی ظالم افواج اور مسلح گروہوں نے جموں و کشمیر میںظلم وجبراورخون کی وُہ ندیاںبہائیںکہ 4لاکھ کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی۔ایک طرف پاکستان کے معرض وجود میںآنے کے بعد بھارت سے ہجرت کرنیوالے مسلمان شہداء کاخون ابھی تازہ ہی تھا کہ جموں وکشمیر میں ہندوڈوگرہ حکمران ہری سنگھ کی افواج نے دہشتگرد تنظیم کی قیادت میں مظلوم مسلمان کشمیریوں کی نسل کشی میںجموں شہرکی گلیاں خون سے سرُخ کردیں۔بچوں سے لیکر نوجوانوں بلکہ بزرگوں تک کوبھی شہید کیا گیا ، عورتوں کی عصمت دری کی گئی جبکہ 5لاکھ کے قریب مسلمانوں کوڈوگرہ حکومت کے مظالم کی وجہ سے ہجرت کرناپڑ ی ۔ اُس وقت جموں کی آبادی میں مسلمانوں کاتناسب 61فیصد تھا۔دی ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ”نومبر1947ء کومظلوم کشمیریوں کی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نسل کشی کی گئی اوراکثریت کوقتل عام کے ذریعے اقلیت میں بدلنے کی کوشش کی گئی”۔ یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے بڑا ہولوکاسٹ تھا۔جولائی سے اکتوبر 1947ء دوماہ میں سول کپڑوں میں دہشتگردوں کی ایک بڑی تعدادجموں شہرمیں تعینات کردی گئی تھی جس کے شواہد پنڈت جواہرلال نہرو اور مہاتما گاندھی کے خطوط جوکہ طویل عرصہ بعد منظر عام پر آئے اُن میں بھی اُس وقت مسلمانوں کی اکثریت کواقلیت میں بدلنے اورجموں و کشمیر پر قبضے کے حوالے سے مفصل ذکر کیا گیا ہے ۔ بھارت کی جانب سے مہر چند مہاجن کو خاص طور پر بھارت سے جموں و کشمیر کا وزیر اعظم بننے کیلئے لایا گیا تاکہ مسلم کشمیریوں کی نسل کشی کی صدارت کی جاسکے جسے بعد میں نہرو حکومت کے ذریعہ چیف جسٹس کے عہدے سے بھی نوازا گیا ۔تاریخ کے دریچوں میں جھانکیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مہاراجہ کی زیرسرپرستی آر ایس ایس کے اہم لیڈر بلراج مدھوک، کیدارناتھ ساہنی، وجے ملہوترا اور مدن لال کھورانہ انیس سوچالیس کی دہائی میں آر ایس ایس کے انچارج کے طور پر جموں میں تعینات تھے۔گورنر چیت رام چوپڑا اور ڈی آئی جی پولیس بخشی اودے چند نے بھی مظلوم کشمیریوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے اور منظم مسلح ہندو گروہوں نے بھمبر تک مظلوم کشمیریوں کاقتل عام کیا۔معروف صحافی ،کشمیری پنڈت اور سیاسی کارکن آنجہانی ویدبھیسن نے اپنی زندگی میں کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی کے حوالے سے ہرموقع پرکھل کرکہاکہ ”اودھم پور، چنانی، رام نگر اور ریاستی علاقوں میں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام ہوا، بھدرواہ میں بھی مسلمانوں کی بڑی تعداد فرقہ وارانہ غنڈوں کا نشانہ بنی اوریہ آر ایس ایس کے کارکنوں کی طرف سے ایک منصوبے کے تحت نسل کشی تھی جسے ہندو ڈوگرہ مہاراجہ انتظامیہ کی مکمل حفاظت اور سرپرستی حاصل تھی”۔ افسوس آج سات دہائیاں گزرنے کے باوجود بھی اقوام متحدہ سمیت اقوام عالم مظلوم کشمیریوں کواِن کاحق حق خودارادیت دینے میں مکمل طور پر ناکام ہیں جبکہ فاشسٹ بھارت نے آج بھی کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی جاری رکھی ہوئی ہے۔ اس وقت بھارت نے کشمیر میں دس لاکھ فوجی تعینات کر رکھے ہیں جس کی وجہ سے یہ دنیا کا سب سے زیادہ عسکری علاقہ ہے۔ آج بھارت مقبوضہ کشمیر میں آبادیاتی تبدیلی کی وہی پالیسی اپنا رہا ہے جو ہری سنگھ نے اختیار کی تھی۔ اس سے بھی بدتر صورت حال ابتر ہوتی جارہی ہے۔آج کشمیری خواتین کی عصمت دری کو بھارتی مسلح افواج جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ بھارتی حکومت نے مقامی لوگوں کے املاک کے حقوق تک کو تبدیل کر دیا ہے ۔ کشمیر میں آبادیاتی تبدیلی لانے کی بھارت کی کوشش جنیوا کنونشن کی بھی سراسر خلاف ورزی ہے۔ بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں کو مسلسل نظر اندازکررہاہے۔ اور نہ ہی بھارتی فوج کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو کم کر سکتی ہے ‘ کشمیری عوام کی جدوجہد الحاق پاکستان کیلئے ہے اور وہ قیام پاکستان سے لیکر آج تک اس مقصد کیلئے قربانیاں دے رہے ہیں۔لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب اور دنیا بھر میں بسنے والے کشمیری یوم شہدائے جموں اس عزم کی تجدید کیساتھ منا تے ہیں کہ حق خودارادیت کے حصول تک شہداء کے مشن کو جاری رکھا جائے گا۔انشااللہ

