آج کام کالم شروع کرنے سے پہلے ایک کہاوت بیان کرتے ہیں۔اس سے کالم بہتر طور پر سمجھ آئے گا۔ایک بیٹے نے اپنی ماں سے کہا۔ ماں میراماموںبہت ہی اچھا ہے۔ ماں نے کہا بیٹا، جس ماں نے تمہارے ماموں کو جنا ہے اسی ماںنے مجھے بھی جنا ہے۔ میں جانتی ہوں تیرا ماموں کتنااچھا ہے۔یہودیوں کو جتنا فلسطینی جانتے ہیں دوسرا کوئی نہیں جان سکتا کہ کتنے سفاک وحشی شقی القلب ظالم ہیں ۔ حماس نے لازوال قربانیاں دیکر یہودیوں کو ساری دنیا میں ننگا کر دیا۔ نیتن خود کہتا ہے ہم تنہا ہو گئے۔وحشی یہودیوں کی مذہبی کتاب تلمود کتاب میںلکھا ہے کہ صر ف یہودی اللہ کے پیارے ہیں، باقی انسان کیڑے مکوڑے ہیں۔ یہ فلسطینیوں سے کیڑے مکوڑوں والا ہی معاملہ کر رہے ہیں۔ اللہ چائے تو ایک جھٹکے میں انہیں دنیا سے مٹا دے۔ مگر اللہ ظالموں کومٹانے کیلئے اپنے نیک بندوں سے ہی کام لیتا ہے۔ اللہ حماس کے ہی ذریعے سے ان کو جلد مٹائے گا۔ان شاء اللہ۔ تاریخی طور پر ثابت ہے کہ یہودی فلسطین میں صرف آٹھ سو سال تک رہے۔ اس کے مقابلے میں فلطینی جن کا وطن فلسطین ہیں ڈھائی ہزار سال سے فلسطین میں آباد ہیں۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں لکھا ہے جو قوم جہاں رہ رہی ہے اس کاوہ وطن ہے۔ کوئی باہر کی قوم اس پر اپنا دعویٰ نہیں کر سکتی۔ اسی پر شاعر اسلام علامہ شیخ محمد اقبال نے اپنے ایک شعر میں تاریخی بات کی کی تھی:۔
ہے خاک فلسطین پر یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا
برطانیہ نے مسلمانوں سے دشمنی میں ١٩١٧ء کے بلفورمعاہدے کے تحت دنیا سے یہودیوں کو فلسطین میں آباد کیا۔رفتہ رفتہ دہشت گرد یہودی حکومت نے فلسطینیوں کو مار مارگھروں سے نکال دیا۔ باہر سے آئے ہوئے یہویوں کو نئی نئی کالونیاں بنا کربسانا کرنا شروع کیا۔ آج ان کو ویسٹ بنک اور غزہ کی چھوٹی سے پٹی میں بانٹ رکھا ہے۔ ان پر بھی قبضہ کر گریٹر اسرائیل بنا چاہتا ہے۔ برطانیہ اور دیگر ملکوںنے ١٩٤٨ء میں اسرائیل کو ایک سیاست کے طور پر تسلیم کر لیا۔ عیسائیوں کا ماسٹر مائینڈ امریکی اس دن سے اسرائیل کی مدد کر رہا ہے۔ پڑوسی مسلمان ملکوں پر قبضے کروا رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کہتا ہے اسرائیل رقبہ بہت چھوٹا ہے اسے وسط دینی ہے۔ اس طرح اسرائیل کو گریٹر اسرائیل بنانے میں ٹرمپ بنیادی ساتھی ہے۔ بنی اسرائیل کا اصل دین اسلام ہی تھا۔ ان کے انبیا میں کوئی بھی یہودی نہیں تھا۔بعد کے زمانے میں یہودیت پیداہوئی تھی۔ یہودیت اس خاندان سے منسوب ہے جو حضرت یعقوب کے چھوٹے بیٹے یہودہ کی نسل سے تھا۔ حضرت سیلمان کے بعد فلسطین کی حکومت دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئی۔ تو یہ خاندان اس ریاست کا مالک ہوا جو یہودیہ کے نام سے منسوب ہوئی اور بنی اسرائیل کے دوسرے قبیلوں نے اپنے الگ ریاست قائم کرلی۔ جوسامریہ کے نام سے مشہور ہوئی۔ اسیریا والوں نے حملہ کر کے سامریہ کو برباد کیا بلکہ اس اسرائیلی قبیلوںکا نام نشان مٹا دیا۔ جو اس ریاست کے بانی تھے۔ پھر یہودہ اور اس کے بھائی بنیامین کی نسل ہی باقی رہ گئی۔ اس پر یہودہ کے غلبے کی وجہ سے یہود کالفظ کا اطلاق ہونے لگا۔ اس نسل کے اندر کاہنوں اور ربیوں اور احبار نے اپنے اپنے خیالات اور رجحانات کے مطابق عقائد اور رسوم اور مذہبی ضوابط کا جو ڈھانچا صدہا برس میں تیارکیا اس کا نام یہودیت ہے۔ یہ ڈھانچہ چوتھی صدی قبل مسیح سے بننا شروع ہوا اور پانچویں صدی بعد مسیح تک بنتا رہا۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے رسولوں کی لائی ہوئی ہدایت کا بہت تھوڑا عنصر اس میں شامل ہے۔جو ہے اس کا حلیہ بھی اچھا خاصابگڑچکا ہے۔اسی لیے قرآن شریف میں اکثر مقامات ان کو”الذین ھادوا” کہہ کر خطاب کیاہے ۔یعنی اے وہ لوگو جو یہودی بن کر رہ گئے ہو۔ان میں سب کے سب اسرائیلی نہ تھے بلکہ وہ غیر اسرائیلی لوگ بھی تھے جنہوں نے یہودیت قبول کر لی تھی۔ قرآن میں جہاں بنی اسرائیل کو خطاب کیا گیاے وہاں بنی اسرائیل کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور جہاں مذہب یہودیت کے پیروںکا خطاب کیا گیاہے وہاں”الذین ھادوا” کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔یہودی اپنے جراہم چھپانے کیلئے اللہ کے انبیاتک کو قتل کرنے والے ہیں۔بنی اسرائیل کی شکل میں اچھے خاصے مسلمان تھے۔مگر اپنے آپ کو یہودی بنا دیا۔قرآن شریف کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح کے بعد حضرت ابراہیم پہلے نبی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کو دنیا میں پھیلانے مقرر کیا تھا۔حضرت ابراہیم کو جب اللہ نے نبوت عطا کی تو انہوں نے پہلے برسوں عراق، مصر شام و فلسطین لے کر عرب کے ریگستانی علاقوں میں اللہ کے دین کو پھیلانے کی کوشش میں لگے رہے۔اس کے بعد اپنی مشن کی اشاعت کیلئے شرق اُردن میں اپنے بھتیجے حضرت لوط کو بھیجا۔ شام و فلسطین اپنے چھوٹے بیٹے حضرت اسحاق کو، اور اندرون ِعرب میں اپنے بڑے بیٹے اسماعیل کومامور کیا۔ پھر اللہ کے حکم سے مکے میں اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کو ساتھ ملا کر خانہ کعبہ کی تعمیر کیا۔مکہ کو اللہ کے حکم سے دین اسلام پھیلانے کامرکز بنایا۔حضرت ابراہیم کی نسل سے دو بڑی شاخیں۔ایک حضرت اسماعیل کی اولاد جو عرب میں رہے ۔ قریش اور عرب کے بعض دوسرے قبائل کا تعلق اسی شاخ سے تھا۔ جو عرب کے باقی قبیلے نسلاً حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے نہ تھے۔ وہ بھی اس کے دین میں شامل ہونے کی وجہ سے اپنا سلسلہ نسب ان ہی سے جوڑتے ہیں۔ دوسری حضرت اسحاق کی اولاد جن میں حضرت یعقوب ، موسی ، دائود ، سلیمان عیسیٰ اور بہت سے انبیا پیداہوئے۔حضرت یعقوب کانام چونکہ اسرائیل تھا اس لیے یہ نسل بنی اسرائیل کے نام سے مشہور ہوئی ۔ اس شاخ میں جب پستی و تنزل کا دور شروع ہوا۔ تو اس میں یہودیت پیداہوئی اور پھر عیسائیت نے جنم لیا۔اسرائیل کے معنی ہیں عبداللہ یا بندہ خدا۔یہ حضرت یعقوب کو اللہ کی طرف سے عطا ہوا تھا۔حضرت یعقوب حضرت اسحاق کے بیٹے اور حضرت ابراہیم کے پوتے تھے۔ ان ہی کی نسل کو بنی اسرائیل کہتے ہیں۔بنی اسرائیل کی اپنی روایات کے مطابق ان کے مورثِ اعلی حضرت یعقوب سے اللہ تعالیٰ نے کشتی لڑی۔ رات بھر کشتی ہو تی رہی۔ صبح تک لڑ کر بھی اللہ تعالیٰ ان کو بچھاڑ سکا ۔ پھر جب صبح ہوئی ہوگی اور اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا: اب مجھے جانے دو۔ تو انہوں کہا: میں تجھے نہ جانے دوں گا جب تک تو مجھے برکت نہ دے۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا تمھارا نام کیا ہے؟ انہوںنے کہا یعقوب ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آئندہ تیرا نام یعقوب نہیں بلکہ اسرائیل ہو گا۔بنی اسرائیل کو اللہ نے دنیا میں بڑا مقام دیا تھا قرآن ان کے واقعات سے بھرا پڑا ہے۔ ایک طرف ان میں جلیل القدر پیغمبران پیدا ہوئے،دوسری طرف حضرت یوسف کے زمانے میں اور ان کے بعد مصر میں ان کو بڑا اقتدار نصیب ہوا۔ مصر کے ارد گرد ان ہی کا سکہ رواں تھا۔ مگر یہود ی اللہ کی طرف سے یہ عظیم کامیابی سنبھال نہ سکے ۔ اللہ سے دعدہ خلافیاں کرنے لگے۔ اللہ نے ان پر دو دفعہ عذاب نازل کیا اور فرمایا تھا کہ اگر تم پھر فساد برپاہ کروں گے۔توتمھیں تیسری دفعہ عذاب دوں گا۔ اب یہ اللہ کی حکمتیں ہیں۔ اللہ نے ان کو تیسرا عذاب دینے کیلئے فلسطین میں اکٹھا کیا ہے۔ حماس کو فربانیاں دینے کیلئے چنا ہے۔ میرا ایمان ہے ۔حماس پر مظالم کی وجہ سے ان پر جلد تیسرا عذاب نازل ہونیوالاہے اور اللہ تعالیٰ یہود کو ان کے مظالم کی وجہ سے حماس کے ہاتھوں شکست دے گا۔ ان شاء اللہ۔
کالم
یہودیت کی ابتداکیسے ہوئی
- by web desk
- ستمبر 29, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 21 Views
- 13 گھنٹے ago