روا ں سال سے یہودی امریکہ میں آباد ہیں ۔ مگر آج تک انہوں نے اپنے رہن سہن ، ثقافت ، زبان اور کلچر کو تبدیل نہیں کیا اور نہ ہی کسی اعتبار سے امریکی سوسائٹی میں مد عم ہونے کی کوشش کی۔ وہ امریکہ کے جس شہر میں رہیں، کو شش کر تے ہیں کہ ایک مخصو ص علاقے میں اکٹھے رہیں۔ امریکی یہو دی اپنی اولاد کی تعلیم او ر تربیت پر خصو صی توجہ دیتے ہیں ،انکو یہ بھی سہولت حا صل ہے کہ امریکہ کے ہر بڑے شہر میں انکے اپنے ذاتی سکول ، کالج، یو نیور سٹیاں اور ہسپتال ہیں ،جہاں کا زیادہ تر عملہ یہو دی ہے۔ سکولوں میں خصو صاً یہو دی بچوں کو خصو صی تربیت دی جاتی ہے اور نصاب کے مر تب کنندہ زیادہ تر یہو دی ہیں جو انہیں مذہبی روایت کی روشنی میں آگے بڑھاتے ہیں۔ نیویارک شہر میں جسے جرائم کا با دشاہ کہا جاتا ہے وہاں پر یہو دیوں مجرموں کی شر ح صفر ہے۔ نیویارک شہر میں جہاں رات گئے تک سفید فام امریکیوں اور کالے امریکیوں اور ایشائیوں کے بچے آوارہ گر دی کرتے نظر آتے ہیں غیر اخلاقی اور قتل جیسی بھیانک وارداتیں کرتے ہیں۔مگر وہاں پر آپ کبھی بھی امریکی یہو دیوں کے بچے کو نہیں دیکھیں گے ۔ شام آٹھ بجے کے بعدکوئی یہو دی لڑکا اور لڑکی سڑکوں ، فٹ پاتھوں پر نظر نہیں آئے گا ۔ ۔ امریکی یہو دی اپنی بیٹی کی بلو غت کو چھو تے ہی شادی کرتے ہیں جو جنسی بے راہ روی سے باز رہنے کا واحد ذریعہ ہے اور عورتیں صدیوں پرانے لباس میں نظر آتی ہیں اور کوئی مر د دا ڑھی کے بغیر ملنا محال ہے ۔ یہو دیوں کی کو شش ہوتی ہے کہ وہ اپنے سکولوں کالجوں اور یو نیو ر سٹیوں میں کسی اور مذہب کے بچوں کو دا خل نہیں ہونے دیتے۔ ہمارے ہاں تعلیم ڈگری اور نوکری کی حصول کےلئے جاتا ہے۔ تربیت نامی کوئی چیز نہیں۔بد قسمتی سے اساتذہ کرام اپنے مضمون کا لکچر دے کر چلے جاتے ہیں۔ مجھے اچھے طریقے سے یاد ہے کہ ہمارے سکول، کالج اور یونیور سٹی کے اساتذہ کرام اپنے متعلقہ مضمون کے ساتھ ساتھ بچوں کی تربیت پر بھی حد سے زور دیتے۔ والدین کے ساتھ ساتھ بچوں کی تربیت میں سکول ، کالج اور یونیور سٹی کا بڑا کر دار ہوتا ہے مگر افسوس نہ وہ اساتذہ کرام رہے اور نہ وہ طالب علم۔ بچہ سکول سے لیکر یو نیور سٹی تک ۳۲ سال تعلیمی اداروں میں گزارتا ہے اور گھر سے زیادہ وقت سکول، کالجوں اور یو نیور سٹیوں میں ہوتے ہیںاور یہی وقت انکے کردار اور شخصیت سازی کا ہوتا ہے مگر افسوس والدین کے ساتھ ساتھ اساتذہ کرام بھی تو فریضہ اداکرنے کے قابل نہیں اور یا ادا نہیں کرتے۔ ایک زمانہ تھا کہ اُستاد کی اتنی عزت عظمت ہوتی کہ شاگر د اُستاد کے سامنے بول نہیں سکتا تھا مگر اب میں خود اپنی گناہ گار آنکھوں سے دیکھ رہا ہوںکہ طالب علم اور اساتذہ کرام محفل میں بیٹھ کر وہ کام کرتے ہیں جو اساتذ ہ کرام کو نہیں کرنا چاہئے۔ اسا تذہ بھی کردار ، افکار اور علمی لحاظ سے عظیم لوگ ہوتے جہاں تک نصاب تعلیم ہے اُس میں بھی بچوں کی تربیت پر زور نہیں دیا جاتا ۔ خا ص طور پرنیچرل سائنس پڑھنے والے بچے بچیوں کو وہ مضامین نہیں پڑھائے جاتے جس سے اُسکی کردار اور شخصیت سازی ہو۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ دین کوسمجھنا ہم نے چھوڑ دیا ہے اور سارا دن یا ہم موبائیل سے کھیلتے ہیں اور یا کمپیوٹر سے۔ بچے نماززبر دستی پڑھتے ہیں اور قُر آن مجید فُر قان حمید کو ہم نے صرف نا ظرے کی حد تک پڑھنے کے لئے محدود کیا ہے ۔قُّر آن پاک کو بچپن میںناظرے کے ساتھ پڑھنے کے بعد ہم گھر میں کسی اونچی جگہ پر رکھ دیتے ہیں جیسے یہ ہمارے لئے نہیں صرف مولوی صاحب کےلئے ہے۔ جب ہم دین کو صحیح طریقے سے سمجھنے کی کو شش نہیں کریں گے اُس وقت تک ہم نہ اچھے طالب علم ، نہ اچھے بچے اور نہ اچھے انسان بن سکتے ہیں۔ طارق جمیل صا حب فرماتے ہیں کہ قُر آن مجید فُر قان حمید کو خود سمجھنے اور پڑھنے کی کوشش کرو تاکہ آپکو خود پتہ ہو کہ حق اور سچ کیا ہے۔ جہاں تک آج کل سوشل میڈیا ، انٹر نیٹ ، کیبل اور ڈش انٹینا کو تعلق ہے والدین کو چاہئے کہ وہ ان اشیاءتک بچوں کی سر گر میوں کو محدود رکھیں۔ کیونکہ فی زمانہ بچے زیادہ وقت ان چیزوں کے دیکھنے پر صرف کرتے ہیں۔میں یہاں یہ بات کو بھی ایڈ کرنا چاہتا ہوں کہ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بڑے بڑے دینی سکالر ، سوشیالوجسٹ ادیب اور شاعروں کو بچوں کے کردار دسازی اورشخصیت سازی پرلیکچر دینے کےلئے مد عو کرنا چاہئے۔پہلی جماعت سے لیکر ایم اے، ایم ایس سی ، انجینئرنگ اور میڈیکل کالج تک نصاب بدلنے کی ضروت ہے۔ ہم اسکو اکانومسٹ ، ڈاکٹر، انجینئر جیالوجسٹ بننے کی کو شش تو کرتے ہیں مگر ہم اسکو اچھا انسان بننے کی کوشش نہیں کرتے ۔ جب تک وہ اچھے اخلاق کرادا اورشخصیت کا انسان نہیں ہوگا نہ تو وہ اچھا انجینئر، نہ اچھا ڈاکٹر اور نہ اچھا پروفیسر بن سکتے ہیں۔ یہودی ایک شاطر قوم ہے اور اُ ن میں superiritycomplexہے مگر اسکے با وجود بھی اُنہوں نے مسلمانوں کی طر ح عصری تعلیم اور علوم، کلچر ، روایات اور ثقافت کو چھو ڑا نہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ پو ری دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں۔زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں یہو دی آگے نہ ہو ں اور یہ سب کچھ انکی محنت ، اپنی قوم کے ساتھ دیانت داری اور اپنے مذہب اور روایات کے ساتھ لگاﺅ کی وجہ سے ہے ۔
کالم
یہو دی اور مسلمان کی تربیت میں فرق
- by Daily Pakistan
- دسمبر 2, 2022
- 0 Comments
- Less than a minute
- 1287 Views
- 2 سال ago