کالم

یہی مکافات عمل ہے

ترک بہادر، جنگجو اور عظیم قوموں میں شمار ہوتی ہے۔ان کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔مثلاً ہون،کشان،توکیو وغیرہ۔یہ ایک خانہ بدوش قوم تھی،جو مشرقی اور وسط ایشیا میں گھومتی رہتی تھی۔عام مورخین اسے حضرت نوحاور عظیم قوموں میں شمار ہوتی ہے۔ان کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔مثلاً ہون،کشان،توکیو وغیرہ۔یہ ایک خانہ بدوش قوم تھی،جو مشرقی اور وسط ایشیا میں گھومتی رہتی تھی۔عام مورخین اسے حضرت نوح ؑ کے بیٹے یافت کی اولاد قرار دیتے ہیں۔اموی خلیفہ ہشام کے عہد میں ابوصیداءکی تبلیغی کوششوں سے ماروالنہر کے لوگ کثرت سے اسلام لائے تھے۔ ترکوں کو عباسی خلیفہ المتصم کے عہد میں عروج ملا۔ سلیمان شاہ عثمانی سلطنت کا پہلاتاجدارہے ۔ عثمان غازی کا دادا اور ارتغرل کا والد تھا۔ اس کا تعلق اوغور ترکوں کے کائی قبیلے سے تھا۔ سلیمان شاہ کا قبیلہ پہلے ہجرت کر کے اخلاط میں مقیم ہوا۔ اس کے بعد حلب چلا گیا۔ سلیمان شاہ 1228ءدریا میں ڈوب کر مر گیا۔ اسی سال ارتغرل سلیمان شاہ کی جگہ کائی قبیلے کا سردار بنا۔ ارتغرل نے ایک جنگی جھڑپ میں منگولوں کے خلاف سلجوقی سلطان علاﺅ لدین کیقباد کی فوج کی مدد کی ۔ اس پر سلطان علاﺅ لدین اس سے خوش ہوا۔خدمت کے اعتراف میں اپنی سلطنت کے ایک حصہ انگوراہ کے قریب جا گیر عطا کی۔ ارطغرل نے مذید علاقے بھی فتح کیے اور 1228 ءتا1288 ءتک60 سال حکومت کی۔ ارتغرل نے اس دوران رومیوں کو شکست دے کر آیندہ کے لیے عثمانی سلطنت کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ علاﺅلدین سلجوقی سے مل کر منگولوں اور رومیوں کو سلجوقی سلطنت پر حملہ کرنے سے بچایا۔ اس کی بہادری کی وجہ سے ہزاروں اوغور ترک انا طولیہ کے مختلف حصوں میں اس کے پرچم تلے جمع ہوتے گئے۔ ارتغرل سلجوقی سلطنت کا محافظ بن گیا تھا۔ سلجوقی بادشاہ کا نشان چاند تھا۔ ارتغرل نے بھی علاﺅلدین سلجوقی کے نائب کے حیثیت سے اسی نشان چاند کو اختیار کیا۔ یہ نشان آج تک ترکوں کا قومی نشان ہے۔ ارتغرل نے ترک سردار کی حیثیت سے دنیا میں اپنا نام پیدا کیا۔ اس کی حکومت کو لوگ ”امینی سلطان“ کے نام سے مخاطب کرتے تھے۔ ارتغرل کا انتقال 1288 ءمیں ہوا۔ ارتغرل ایک سچا مسلمان بہادر سلطان تھا۔ کسی بھی عزیز و اقارب کے خون سے پاک رہا۔ اپنی صلاحیت سے سب کچھ حاصل کیا۔ اپنے قبیلے میں یکجہتی پیدا کی۔ ایک بہادر اور نڈر سپاہی تھا۔ رحم دل اور متواضع بھی تھا۔ترکی نے اس کی خوبیوں کو فلم ارتغرل میں شاندار طریقہ سے پیش کیا گیا۔ یہ فلم پوری دنیا میں مشہور ہوئے۔ مسلم دنیا کے بچوں اور بڑوں کی زبانوں پر ایک بار پھر ارتغرل ارتغرل کے تعرنے گھوجنے لگے ۔ ارتغرل کے بعد اس کا بیٹا عثمان سلطنت کا بادشاہ بنا۔عثمان 1258ءمیں پیدا ہوا تھا۔ اس کے نام سے دنیا میں عثمانی خاندان کو شہرت ملی۔ سلطنت عثمانیہ کا نام اس کی نام سے مشہور ہوا۔ عثمان خان نے بھی اپنے باپ ارتغرل کی طرح جنگیز خان کے حملوں میں سلجوقی سلطنت کی مدد کی۔ سلجوقی سلطنت کا صدر مقام قونیہ تھا۔ اس وقت اسلامی حکومتیں آپس میں جنگ جدل میں مصروف ہو کر بے کار ہو چکیں تھیں۔ اگر عثمانی آگے نہ آتے تو شاید دنیا میں اسلامی حکومت ختم ہو جاتی۔ اللہ کی مرضی سے اس وقت عثمانی حکومت دنیا میں سامنے آئی ۔ عثمانی حکومت نے دنیا کے تین براعظموں پ 1288سے 1924ءتک636 سال کامیابی سے حکومت کی۔ عثمان نے بانطینیوں کو شکست دیکر اپنی حکومت کو مستحکم کیا ۔ 1300 ءمیں عثمان ایک خود مختیار فرمانروا بن گیا۔ عثمان کو اس سے مزید کامیابیاں ملنی شروع ہوئیں۔ آخری کامیابی بروصہ کی فتح تھی۔ عثمان کا1326 ءمیں انتقال ہوا۔ اس کو بروصہ ہی میں دفن کیا گیا۔ عثمانی حکومت دنیا کے تین براعظموں، ایشیا، افریقا اور یورپ پر636 سال قائم رہی ۔ عثمان کے بعد اس کا بیٹااور خان حکمران بنا۔ اس نے1326 ءتا1359 ءتک33 سال حکومت کی اور خان عثمان سے بھی بڑھ کر بہادر تھا۔ اس نے عثمانی سلطنت کو وسعت دی ۔ اس کے بعد مراد اوّل تخت نشین ہوا۔ اس کے دور میں یورپ کی کئی ریاستیں مغلوب ہوئیں۔ اس نے اپنا ایڈ کوراٹر یورپ میں ایڈیا نوپل بنایا ۔ یہ90 برس تک عثمانی سلطنت کا مرکز بنا رہا ۔ اس کے بعد1389 ءتا1402 ءتک 13 سال بایزد اوّل(یلدرم) بادشاہ بنا رہا۔ اس دور میں عثمانی سلطنت ایشیادریا فرات سے یورپ کے دریائے ڈنوب تک پھیل گئی۔ تیمور لنگ ایک مسلمان حکمران نے عثمانی بادشاہ کو انگورہ(انقرہ) کی جنگ میں بظاہر شکست دے کر عثمانی سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔ مگر محمد اوّل نے اس کا مقابلہ کر کے عثمانی سلطنت کو بحال کیا۔اس نے سارے بغاوتیں ختم کیں۔ محمد اوّل نے حرمین شریفین کی ترقی کےلئے بھاری رقم مختص کی۔ اس پر عثمانیوں کو خلیفة المسلمین بنا دیا۔ اس کے بعد مراد ثانی 1412 ءمیں تخت نشین ہوا۔ اس نے بھی سلطنت عثمانیہ کو وسعت دی۔ مراد ثانی حافظ قرآن تھا۔ نیک دل بادشاہ تھا۔ اس کے بعد بھی500 سو سال تک 21 عثمانی خلفاءنے سلطنت عثمانیہ پر حکومت کی۔ مراد رابع(چہارم)1923ءتا1940 ءکو تخت نیشن ہوا۔ اس نے17 سال حکومت کی۔ابراہیم نے 1640ء1648ءتک،محمد رابع نے 1648ءتا1687 ءتک،سلیمان ثانی1687 ءتا1691 ءتک،احمد ثانی نے1691 ءتا16985 ءتک، مصطفیٰ ثانی نے1695 ءتا1703 ءتک،احمد ثالث نے1703 ءتا1730 ءتک،محمود اوّل نے1730 ءتا1754 ءتک،عثمان ثانی نے1754 ءتا 1757ءتک،مصطفی ثالث نے1757 ءتا 1773 ءتک،عبدالحمید اوّل1773 ءتا 1789 ءتک،سلیم ثالث نے1789 ءتا 1807ءتک،مصطفی رابع1807ءتا 1808 u ءتک،محمود ثانی نے1808 ءتا 1839 ءتک، عبدالمجید خان اوّل1839 ءتا 1861ءتک،عبدالعزیز 1861ءتا1876 ءتک،مراد خان پنجم1876 ءتا1923 ءتک ،عبدالحمید خان ثانی1876 ءتا1909 ءتک، محمد پنجم 1909ءتا1918 ءتک،محمد سادس1918ءتا1922 ءتک، عبدالمجید ثانی1922 ءتا1924 ءتک حکمران رہے۔ اس کے بعد ترک نوجوان تحریک چلی۔ پھر مصطفیٰ کمال پاشا حکمران بنے۔ ترکیہ کو نام نہاد جمہوریہ بنایا۔عثمانی خلافت کے آخری بادشاہ سلطان عبدالمجید ثانی تھے۔معاہدہ لوازن کے تحت قومی اسمبلی کے اجلاس میں مصطفی کمال پاشاہ کوحکمران منتخب کر لیا گیا ۔ جنگ عظیم میں ترکی نے شکست تسلیم کی۔ بلا آخر جنگ عظیم کے بعد اتحادیوں نے 1924 ءمیں عثمانی خلافت کا خاتمہ کر کے مختلف راجوڑوں میں تقسیم کر کے اپنے پھٹو مسلمان حکمران مقرر کر دیادیے ۔اس طرح دنیا کے تین براعظموں پر636 سال کامیابی سے حکومت کرنےوالی خلافت عثمانیہ کے حصے بخرے کر دیے گئے، کہ یہی مکافات عمل ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے