کالم

یہ پاگل، پاگل، پاگل دنیا

جب ہم چھوٹے تھے بچپن میں الفاظ و معانی کا بھی ادراک نہیں تھا ۔ شوق کے عالم میں اخبار میں تصویریں دیکھا کرتے اورہجے کرکے اخبارات کی سرخیاں اور فلمی اشتہار پڑھا کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ ایک انگریزی فلم کا اردو نام پڑھا” یہ پاگل، پاگل ،پاگل دنیا ، پاگل ، پاگل کی تکرار کے باعث یہ اشتہار ابھی تک ذہن سے محو نہیں ہوا ایک بات کہتے ڈر لگتاہے کہ کسی پاگل کو تین مرتبہ پاگل کہنے کی منظق ہمیں آج تک سمجھ نہیںآ ئی حالانکہ پا گل مائنڈ بھی کر سکتاہے۔ جس ملک میں ہم رہتے ہیں وہاں ”پیزا ” پولیس سے زیادہ تیز رفتاری سے ہمارے گھر پہنچ جاتاہے۔کار لینے کیلئے100 فیصد آسانی سے جبکہ تعلیم کے حصول کیلئے20 فیصدقرضہ ملنا مشکل ہے ۔ باسمتی چاول400روپے کلو اور موبائل کی رسم بالکل مفت مل جاتی ہے۔”جوتے” جو پہننے کی چیز ہیں ایئر کنڈیشنڈ دکانوں میں فروخت ہوتے ہیں اور جبکہ کھانیوالی سبزیاں،پھل فروٹ فٹ پاتھ پر بکتے ہیں۔لیمن جوس آریفیشل فلیور کے ساتھ بنایا جاتاہے اورڈش واش لیکویڈ تیارکرنے والی کمپنیوںکا دعوے ٰ ہے کہ اس میں اصلی لیموں استعمال کیا جاتا ہے ۔ ایم اے پاس،ایم ایس سی ہولڈر یا پھر انجینئر اور دیگرپڑھے لکھے افراد بے روزگارپھررہے ہیں اور کتنے ہی ان پڑھ،جاہل ایم پی اے، ایم این اے بنے ہوئے ہیں ان میں سے درجنوں کرپٹ، رشوت خور، ٹیکس چور ہیں۔ کچھ قبضہ گروپ، منشیات فروش، بجلی چور، گیس چور،لینڈ مافیا کے کرتادھرتا بھی ہیں ۔ یہاں اشرافیہ نے سیاست کو کمائی کا ذریعہ بنالیا ہے جیسے کچھ اسلام کے ٹھیکیداروںنے مذہب کو کاروبار۔جس ملک میں صحت اور تعلیم جیسے شعبوں پر بھی مافیا قابض ہوجائیں اور عام آدمی چھوٹی سے چھوٹی خوشی کو بھی ترسنے لگے تو دل میں بار بار سے خیال آتاہے کہ ہم بھی کیسی عظیم قوم ہیں؟ ان باتوںپر ناراض ہونے،شورمچانے، کڑھنے یا تبصرہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں آپ اسی طرح بدستور سوتے رہیں۔یاپھر جاگتے سوتے اپنے حالات کا رونا روتے رہیں ورنہ لوگ الزام بھی دے سکتے ہیں کہ یہ کوئی پاگل ہے۔آج کے نفسا نفسی کے عالم میں جب ہمارے حکمرانوںنے اپنے لئے دولت کے انبار لگالئے ہیں دنیا جہان کی تمام آسائشیں ان کے گھر کی باندی بن کررہ گئیں ہیں قانون،سیاست اور جمہوریت ان کی خواہش کا نام ہے اس ماحول میں پاکستان کے بارے سوچنا یاپھرپاکستان کی بات کرنا پاگل پن نہیں تو اور کیاہے ؟ اگرسوچاجائے تو یہ بھی پاگل پن ہے غیرممالک میں جزیرے خریدنے والے یا بڑے بڑے بزنس کرنے والی اشرافیہ جب پاکستان میں انوسٹمنٹ کی بات کرے تو سننے والے کو پاگل پن کا دور ہ بھی پڑ سکتاہے اسی قول و فعل کے تضادکو دیکھ کر یہ بات دعوے سے کہی جا سکتی ہے کہ اشرافیہ کو پاکستان سے کوئی محبت نہیں اگر کوئی پاکستان کو ہماری نظر سے دیکھے تو یقین جانئے دیکھتاہی رہ جائے پاکستان تو ایسا ہونا چاہیے۔جہاں خوشیاں کھکھلاتی ہوں،جہاں زندگیاں مسکراتی ہوں،جہاں چاہت ہو بے حدبے شمار،جہاں کبھی نہ ہو ظلم کا بیوپار ،جہاں جذبے سچے ہوں،جہاں رشتے بھی پکے ہوں ، جہاں نفرت کا نہ ہو گمان،بس ایسا ہونا چاہیے ہمارا پاکستان۔بدقسمتی سے حالات نے پاکستان کو ایسا نہیں رہنے دیا یہاں عام آدمی کیلئے غربت کو بدنصیبی بنادیاگیاہے حالانکہ اللہ تبارک تعالیٰ نے پاکستان کو ہر نعمت سے سرفرازکیاہے حکمرانوںنے کبھی پاکستانی بن نہیں سوچا عالم ِ اسلام کا پہلا ایٹمی صلاحیت رکھنے والا ملک ۔ جس ملک میں دنیا کی بڑی دوسری قدرتی نمک کی کان ۔دنیا کی پانچویں بڑی سونے کی کان ۔دنیا کی چھٹی بڑی فوج جس کی صلاحیتوںکا لوہا پورا عالم تسلیم کر چکاہے ۔ دنیا کی ساتویں بڑی تابنے کی کان ۔ سوئی گیس ، کوئلہ،تیل کے وسیع و عریض ذخائر، پھر بھی IMF سے بھیک، غیر ملکی قرضوں پر انحصار اور کشکول لئے پھرنا عقل سے بعیدہے ۔ پانچ دریا اور دنیا کا بہترین آبپاشی کا نظام ہونے کے باوجود بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور ہرسال آنے والے سیلاب کتنی عجیب باتیں ہیں اور اس سے بھی عجیب تر یہ کہ پاکستان جیسے زرعی ملک جس میں دنیا بھر میں چھٹے نمبر پر سب سے زیادہ چاول کی پیداوار اور خوشبودار باسمتی چاول بھی ایسے کہ ہاتھوں ہاتھ بک جائیں۔ انڈیا میں بھی ضلع شیخوپورہ ، سیالکوٹ جیسے اعلیٰ کوالٹی کا چاول پیدانہیں ہوتا پاکستانی کپڑے پر میڈ ان جاپان اور چاولوں انڈیا ،دبئی کا ظاہر کرکے مہنگے داموں بیچا جاتاہے لیکن حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کے باعث دن بدن ایکسپورٹ کم ہوتی جارہی ہے۔ہے نا پاگل پن ۔ ان باتوںپر شور مچانے، کڑھنے یا تبصرہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں اسی طرح بدستور سوتے رہیں۔ یاپھر جاگتے سوتے اپنے حالات کا رونا روتے رہیں شاید پاگل بھی اتنے پاگل نہ ہوں جتنے پاگل ہم بنے ہوئے ہیں۔ہم نے اچھے برے کی پہچان کھو دی ہے پاکستان میں نظریاتی سیاست کا جنازہ نکل چکا ہے صرف مفادات کیلئے لوگوں نے پارٹیوں کو اپنے مسلک کا درجہ دے رکھاہے ۔ اب تلک تو جو پارٹی اقتدار میں ہوتی ہے اسی کو ” اصلی تے۔ وڈی ” پارٹی گردانا جاتاہے جو اس بات کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے اس چاہیے کہ وہ ذرا پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا جائزہ لے لے سب چانن ہو جائیگا ہمارے سیاستدان ہی نہیں عوام کی اکثریت سورج مکھی کے پھولوںکی مانند ہیں سورج کے رخ کے ساتھ ساتھ اپنا چہرہ ادھر موڑ لینے کے ماہر ہیں کتنے مزے کی بات ہے کہ ہم وہ قوم ہیں جو پچاس روپے پر جیب تراش کو مار مارکر لہو لہان کردیتی ہے لیکن500کھرب کی کرپشن کرنیوالوںکو اپنا حکمران منتخب کرلیتی ہے ان حکمرانوں کے نزدیک کروڑ روپے کی بدعنوانی کوئی کرپشن نہیں اور کمال ہے اس پرقانون سازی کرکے کرپٹ مافیا کو آئینی تحفظ دیدیا گیاہے عام آدمی سنے تو بے ساختہ کہہ اٹھے گا ایسا قانون بنانے والے پاگل تو نہیں
دلیل تھی نہ کوئی حوالہ تھا ان کے پاس
عجیب لوگ ہیں بس اختلاف رکھتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے