برس قبل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے تحفظ انسانی حقوق کا چارٹر منظور کیا ۔امریکہ’ برطانیہ’ روس’ جرمنی اور فرانس سمیت بڑے ممالک نے انسانی حقوق کے اس عالمی چارٹر پر دستخط کرکے یقین دھانی کرائی بلکہ عہد کیا کہ وہ رکن ممالک کے ساتھ مل کر مظلوم انسانوں کے حقوق کے تحفظ میں پیش پیش رہیں گے ۔یہ 10 دسمبر1948 کا منظر ہے ،جنرل اسمبلی کے غیر معمولی اجلاس کے اگلے برس نوزائیدہ ممالک (پاکستان) کی نمائندگی بھی اقوام متحدہ میں ہوگئی۔ نصف صدی سے زائد عرصہ گزر گیا مگربڑے ممالک اپنے عہد کا پاس کرسکے نہ مظلوموں کا تحفط آج فلسطین کی حالت دیکھیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے 7 اکتوبر 2023 سے جاری آگ اور خون کی ہولی نے انسانیت کو شرما دیا ہے۔ اسرائیلی ظلم وسفاکی نے 7 ارب انسانوں کو شرمندگی کی دلدل میں گرا دیا ہے 14 ماہ کی بربریت نے 60 ہزارفلسطینیوں کی زندگی کا چراغ گل کر دیا پورا کا پورا غزہ قبرستان دکھائی دے رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر دنیا کا سب سے بڑا قید خانہ بنا ہوا ہے آٹھ لاکھ بھارتی فوج انسانی حقوق کو پیروں تلے روند رہی ہے۔ کہاں ہے، مہذب دنیا اور کہاں ہے انسانی حقوق کے علمبردار ممالک ؟ 10 دسمبر 2024 کو اس بار اقوام متحدہ کی چتھری تلے رکن ممالک کس منہ انسانی حقوق یہ منائیں گے؟
کعبہ کس منہ سے جا گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی!!
گو ہر سال دنیا میں انسانی حقوق کے عالمی دن کو بڑے دھوم دھام سے منایا جاتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بہت سے ممالک مسلمانوں کے حقوق کی پامالی میں سب سے آگے ہیں اور ان ہی کی طرف سے مسلمانوں پر ظلم و ستم بدستور جاری ہے۔ فلسطین، کشمیر، شام و عراق، برما، لیبیا اور صومالیہ جیسے ممالک میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، مسلمانوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے، اور یہ سب کچھ انسانی حقوق کے دعویدار غیر مسلم ممالک کے تعاون سے ہو رہا ہے۔ فلسطین میں اسرائیلی فوج کی جانب سے فلسطینی مسلمانوں پر جاری ظلم و ستم، کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی، اور شام و عراق میں جاری خانہ جنگی میں مسلمانوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔ برما میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے، وہ انسانیت کے تمام اصولوں کے خلاف ہے۔ صومالیہ میں بھی مغربی ممالک کی حمایت سے ہونے والی جنگوں نے بے شمار مسلمانوں کو بے گھر اور قید کر لیا ہے۔ یہ تمام مثالیں واضح کرتی ہیں کہ مغربی ممالک، جو انسانی حقوق کے علمبردار ہونے کا دعوی کرتے ہیں، دراصل مسلمانوں کے خلاف ظلم و ستم کے سب سے بڑے شریک ہیں۔ ان کے لیے انسانی حقوق صرف ایک نعرہ ہے، جس کا حقیقی مقصد اپنے سیاسی و اقتصادی مفادات کو تحفظ دینا ہے، نہ کہ انسانیت کی خدمت کرنا۔ یہ ممالک مسلمانوں کی زمینوں پر جنگیں چھیڑ کر اور ان کی معیشت کو تباہ کر کے، ان کی ثقافتوں کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ عالمی سطح پر انسانی حقوق کے دعوے کرتے ہیں۔ ان کے دوہری پالیسیوں کی وجہ سے انسانی حقوق کی پامالی میں اضافہ ہو رہا ہے اور مسلم اقوام سب سے زیادہ اس کا شکار ہو رہی ہیں۔ اسلام نے 1400 سال پہلے انسانی حقوق کا جو جامع تصور دیا، وہ تمام انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ خواتین کے حقوق، اقلیتی گروپوں کے حقوق، مزدوروں کے حقوق، اور بچوں کے حقوق سمیت تمام انسانی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے . پیغمبر اکرم ﷺنے بھی اپنی آخری خطبے میں فرمایا کہ تمہاری جان، مال اور عزت ایک دوسرے کے لیے محترم ہیں، جیسے یہ دن تمہارے لیے محترم ہے (صحیح مسلم)۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلامی سماج تمام انسانوں کے حقوق کو تسلیم کرتا ہے، چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، مرد ہوں یا عورت، نیز ان کے حقوق کے تحفظ کے لئے مکمل نظام بھی وضع کرتا ہے۔ انسانی حقوق کی سب سے بڑی خصوصیت اس کی جامعیت ہے۔ یہاں صرف فرد کی آزادی کی بات نہیں کی جاتی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس کی سماجی، معاشی اور سیاسی حقوق کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔ بلا شک و شبہ اسلامی تعلیمات انسانی حقوق کے تحفظ کے جامع اصول پیش کرتی ہیں، لیکن بدقسمتی سے بعض مسلم ممالک میں ان اصولوں پر عملدرآمد کی کمی نظر آتی ہے۔ خواتین کے حقوق کی پامالی ان مسائل میں سرفہرست ہے، جہاں انہیں مساوی مواقع فراہم نہیں کیے جاتے، حالانکہ اسلام انہیں برابر حقوق دیتا ہے۔ کئی مرتبہ اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے، اور کئی جگہوں پر انہیں بنیادی شہری حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے، جو قرآن کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ تعلیمی نظام میں انسانی حقوق کے شعور کی کمی بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ عدالتی نظام میں شفافیت اور انصاف کی عدم موجودگی عام ہے۔ سماجی عدم مساوات کے باعث پسماندہ طبقے اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ سیاسی جبر، آزادی اظہار کی پابندیاں، اور بنیادی ضروریات تک رسائی میں رکاوٹیں ان معاشروں کو اسلامی تعلیمات کی حقیقی روح سے دور کر دیتی ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ یومِ انسانی حقوق صرف نعرے یا رسمی دن منانے تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ عملی اقدامات اور سماجی اصلاحات کا متقاضی ہے۔ جہاں دنیا بھر میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کا کسی طور پر بھی جواز فراہم نہیں کیا جا سکتا، وہیں اسلامی سماج میں انسانی حقوق کی پامالی کو بھی کسی طرح جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسلامی تعلیمات میں انسانی حقوق کی حفاظت کے اصول واضح اور جامع ہیں، لیکن ان پر عمل درآمد کی کمی اسلامی دنیا کے کئی مسائل کی جڑ ہے۔ ضروری ہے کہ مسلم معاشرے اپنے اندر بھی جھانکیں، اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنی خامیوں کو دور کریں، اور اپنے سماجی ڈھانچے کو اس نہج پر استوار کریں کہ ہر فرد کو مساوات، انصاف، اور عزتِ نفس حاصل ہو۔ ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ اسلامی سماج میں انسانی حقوق کی پامالی کی کوئی گنجائش نہیں، لہذا انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ہمیں فکری، قانونی اور سماجی سطح پر جامع حکمتِ عملی کے نفاذ کو یقینی بنانا ہو گا تاکہ یومِ انسانی حقوق کے پیغام کو عملی طور پر نافذ کیا جا سکے۔
کالم
10دسمبر انسانی حقوق کا عالمی دن
- by web desk
- دسمبر 10, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 75 Views
- 1 مہینہ ago