کالم

16دسمبر کی تلخ ےادےں

دسمبر سقوط ڈھاکہ کا دن آےا اور گزر گےا ۔دسمبر ہر سال آتا ہے۔ہر سال ہمےں اپنے ”مشرقی بازو “ کے الگ ہونے کی تلخ حقےقت کی ےاد دلاتا ہے ۔ ےہ ےاد صدےوں کے غموں کا بوجھ لئے ہوئے ہے لےکن جو بڑی آسانی سے واقع ہو گئی اور بڑی آسانی سے اسے فراموش کر دےا گےا ۔بےسوےں صدی مےں سقوط ڈھاکہ کا ذلت آمےز منظر مسلمانوں پر ٹوٹنے والی سب سے بڑی قےامت ہے ۔تارےخ شاہد ہے کہ شاےد کسی رات کے اندھےرے اس قدر ہولناک ہوں گے جس قدر ہولناک اندھےروں سے ہمےں ان چند لمحات کے دوران گزرنا پڑا ۔جب آل انڈےا رےڈےو ےہ اعلان کر رہا تھا کہ وطن عزےز کی افواج نے بھارتی فوج کے سامنے ہتھےار ڈال دئےے ہےں ۔سقوط ڈھاکہ پر اندرا گاندھی نے جھومتے ہوئے کہا تھا کہ اےک ہزار سالہ تارےخ کا انتقام چکا دےا گےا ہے اور ےہ کہ دو قومی نظرےے کو خلےج بنگال کے پانےوں مےں غرق کر دےا گےا ہے ۔حقےقت ےہ ہے کہ پاکستان کے دو لخت ہونے کا غم بھلاےا نہےں جا سکتا ۔آج زےادہ تکلےف دہ حقےقت ےہ ہے کہ اےک طرف پاکستان مےں رہنے والے لوگ اس واقعے کی ےاد دکھ ،صدمے اور افسوس کے ساتھ مناتے ہےں دوسری طرف مشرقی پاکستان موجودہ بنگلہ دےش مےں اس دن کو ”آزادی“ کے دن کے طور پر مناےا جاتا ہے اور آج تک پاکستان کے متعلق وہ غلےظ زبان استعمال کی جاتی ہے کہ جسے سننا تو دور کی بات ہے اس کا تصور کرنا بھی اذےت کا باعث ہے ۔پاکستان کو ملنے والے ان نازےبا الفاظ اور بد زبانےوں کا اندازہ اس نوجوان نسل کے روےے سے بھی ہوتا ہے جو اس سانحے کے بعد ےا اس موقع پر پےدا ہوئی اور اب وہ نوجوانی کی حدود سے بھی نکل رہی ہے ۔اس مےں شاےد ان کا قصور نہےں ہے اس لئے کہ انہےں پاکستان ،اس کے باسےوں ،اس کی فوج اور اس کے حکمرانوں کے متعلق جو کچھ بتاےا جاتا ہے اس کا لازمی طور پر ےہی اثر اور نتےجہ ہونا چاہےے ۔ان لوگوں کا اگر بس چلے تو شاےد شےخ مجےب الرحمٰن کی قےادت مےں لڑی جانے والی تحرےک آزادی ےا پاکستان کے خےال مےں بغاوت کا انتقام ہر پاکستانی سے لےں ۔اب جبکہ بنگلہ دےش کو قائم ہوئے آدھی صدی سے زائد وقت گزر چکا لےکن نفرت کا سےلاب دونوں برادر ممالک کے رہنے والوں مےں اب تک موجود ہے اور جوں جوں وقت گزر رہا ہے نفرت کے اس سےلاب مےں بتدرےج اضافہ ہو رہا ہے ،خصوصاً بنگلہ دےشےوں کے دلوں مےں اہل پاکستان کےلئے محبت کے بجائے عداوت پےدا کی جا رہی ہے ۔شےخ مجےب الرحمٰن کی بےٹی حسےنہ واجد اس نفرت مےں اضافے کا سبب بن گئی ہےں جس کے اندر لگی سےاسی انتقام کی آگ بجھنے کا نام نہےں لے رہی ۔بنگلہ دےش کی حکومت تمام بےن الاقوامی قوانےن کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان شہرےوں کو پھانسےاں دےتی جا رہی ہے جس پر آدھی صدی بعد اس نے الزام لگاےا ہے کہ انہوں نے 1971ءمےں جنگی جرائم کا ارتکاب کےا تھا حالانکہ ان کا جرم صرف پاکستان سے محبت تھا ۔بہرحال ان کا جرم صرف پاکستان سے محبت تھا ۔ہر سال 16دسمبر کا دن ہمےں مشرقی پاکستان موجودہ بنگلہ دےش سے بچھڑنے کی وجوہات اور نتائج سے آگاہ کرتا ہے ۔ےہ اےک حقےقت ہے کہ پاکستان بابائے قوم محمد علی جناحؒ کی پر جوش قےادت کے نتےجے مےں کی گئی جمہوری اصولوں پر مبنی کوششوں کی وجہ سے وجود مےں آےا ۔اس نو تعمےر شدہ ملک کو اس وقت پہلی دفعہ شدےد مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جب قائد اعظمؒ قےام پاکستان سے اےک سال بعد ہی اس جہان فانی سے کوچ کر گئے ۔اگر وہ مزےد کچھ عرصہ زندہ رہتے اور ملک کی قےادت کرتے تو پاکستان کی تارےخ بالکل مختلف ہوتی ۔اس کے بعد پاکستان کے پہلے وزےر اعظم اور قائد اعظم کے قرےبی ساتھی لےاقت علی خان کا پر اسرار قتل پاکستان کےلئے مزےد مشکلات کا سبب بنا اور ملکی سےاست مےں اےک بہت بڑا خلاءپےدا ہو گےا ۔آزادی کے وقت پاکستان کے دو حصے تھے اور ان دونوں حصوں کو بھارت کا اےک ہزار مےل پر مشتمل وسےع علاقہ تقسےم کرتا تھا ۔دونوں حصوں کی سےاسی سر گرمےاں اےک دوسرے سے مختلف تھےں ۔ملک کے مشرقی بازو مےں جمہورےت کےلئے فضا سازگار نہ تھی ۔انگرےز حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنے کےلئے بھی انہوں نے مغربی پاکستان کی عوام سے زےادہ جدو جہد کی جبکہ مغربی پاکستان کے لوگ اس سےاسی بصےرت سے محروم تھے کےونکہ ےہاں کی سےاست پر جاگےر دار طبقہ چھاےا ہوا تھا ۔ملکی حالات اس وقت مزےد خراب ہونا شروع ہوئے جب دونوں بازوﺅں کے درمےان اتحاد کو فروغ دےنے کےلئے اردو زبان کو پورے ملک کی مشترکہ زبان قرار دے دےا گےا لےکن اس فےصلے سے ملک کے اتحاد اور سالمےت پر الٹے اثرات پڑے ۔بنگالےوں نے اس فےصلے کو اپنی زبان اور ثقافت کو دبانے کی اےک سازش تصور کرتے ہوئے مشرقی بازو مےں حکومت کے خلاف مظاہرے شروع کر دئےے اور اےک مظاہرے مےں تےن طالب علموں کی ہلاکت نے جلتی آگ کو ہوا دی اور مظاہروں مےں شدت بڑھ گئی ۔اےک اور اہم وجہ جس نے مشرقی پاکستان مےں بے اعتمادی کی فضا مےں اضافہ کےا وہ خواجہ ناظم الدےن کی بر طرفی تھی جنہوں نے لےاقت علی خان کے بعد وزےر اعظم کا عہدہ سنبھالا تھا اور ان کا تعلق بھی مشرقی پاکستان سے تھا ۔1964ءکے صوبائی انتخابات مےں مشرقی پاکستان کی عوام کا متفقہ فےصلہ اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ وہ مشرقی پاکستان کے ساتھ ہونے والے مرکزی حکومت کے ناروا سلوک سے خوش نہےں ہےں ۔وہاں ملک کی سب سے بڑی جماعت مسلم لےگ کو اےک بہت بڑے مارجن سے شکست کا سامنا کرنا پڑا لےکن افسوس کہ مرکزی حکومت کے بےوروکرےٹس سےاسی پہلوﺅں کے پےمانوں ،فےصلوں اور روےوں کو سمجھنے کےلئے دور اندےشی اور عقلمندی سے کام نہ لے سکے ۔جنرل اےوب خان کے مارشل لاءدور حکومت سے تمام مشرقی پاکستانےوں کو نکال دےا گےا جس کے باعث ان مےں احساس محرومی بڑھ گئی ۔1965ءکی پاک بھارت جنگ متحدہ پاکستان کےلئے اےک جھٹکا ثابت ہوئی ۔اس جنگ مےں انتہائی کمزور منصوبہ بندی کی گئی تھی کےونکہ تمام تر فوج مغربی سرحدوں کی طرف لگا دی گئی اور مشرقی پاکستان کو غےر محفوظ چھوڑ دےا گےا ۔اس طرح شےخ مجےب الرحمٰن کو اےک آزاد بنگلہ دےش پر آواز اٹھانے کا بھرپور موقع مل گےا اور اس نے اےک چھ نکاتی فارمولہ پےش کےا اس کا مقصد صرف اور صرف علےحدہ ملک کا قےام تھا ۔جنرل اےوب خان نے اپنا اقتدار غےرٓ آئےنی طور پر جنرل ےحےیٰ کو منتقل کر دےا ۔جنرل ےحےیٰ نے مغربی پاکستان مےں ون ےونٹ ختم کر کے چاروں صوبوں کو بحال کر دےا اور صوبوں مےں ٹکٹوں کی تقسےم کا تعےن صوبوں کی بنےاد پر کر دےا جس کے باعث مشرقی پاکستان نے اس وقت واضح اکثرےت حاصل کر لی ۔1970ءکے عام انتخابات مےں عوامی لےگ نے مشرقی بازو مےں 167سےٹےں حاصل کےں جبکہ مغربی بازو مےں اےک بھی سےٹ حاصل نہ کر سکی ۔دوسری طرف ذوالفقارعلی بھٹو کی جماعت پاکستان پےپلز پارٹی نے صوبہ سندھ اور اور صوبہ پنجاب مےں بھاری اکثرےت حاصل کی ۔ظاہراً انتخابات نے ملک کو دو حصوں مےں تقسےم کر دےا تھا کےونکہ ملک مےں کوئی اےسی قومی جماعت نہ تھی جو دونوں بازوﺅں کی نمائندگی کرتی ۔انتخابات کے بعد صورتحال مزےد گھمبےر ہو گئی اور آخر کار 16دسمبر 1971ءکے دن پاکستان کو اےک اےسے المناک اور شرمناک سانحے سے دوچار ہونا پڑا جس کو ےاد کر کے آج بھی محب وطن پاکستانےوں کے سر شرم سے جھک جاتے ہےں ۔اےک وہ 16دسمبر جب قائد اعظمؒ کے پاکستان کو دو لخت کرتے ہوئے کاٹ دےا گےا اور اےک سولہ دسمبر2014ءکو پشاور مےں آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کا حملہ، جب قےامت برپا کر دی گئی ۔دہشت گرد سکول کی عقبیٰ کی طرف سے داخل ہوئے اور آڈےٹورےم مےں موجود ننھی کلےوں پر گولےوں کی اےسی برسات کر دی جس سے درو دےوار لہو لہان ہوگئی۔آرمی پبلک سکول پشاور کے مادر علمی مےں علم کے حصول کےلئے موجود ننھے فرشتوں پر دن دےہاڑے فولادی آگ برسا کر انسانےت کے دشمن سفاک دہشت گردوں نے ظلم و ستم کے سابقہ رےکارڈ توڑ ڈالے ۔ہر طرف آہےں ،سسکےاں ،دل خراش مناظر بے بسی کی تصوےر بنی ماﺅں کی صدائےں ،باپوں کی پتھرائی ہوئی آنکھےں اور پوری قوم شدت غم سے نڈھال تھی ۔اس سانحے مےں 122پھول مسل دئےے گئے جبکہ 22فراد شہےد ہوئے ۔قوم آج تک اس دکھ اور غم کو نہےں بھولی ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے