کالم

17رمضان المبارک، غزوہ بدر

riaz chu

بدر مدینہ منورہ سے تقریباً اسی 80 میل کے فاصلہ پر ایک گاو¿ں کا نام ہے۔جہاں زمانہ جاہلیت میں سالانہ میلہ لگتا تھا۔یہاں ایک کنواں بھی تھا۔ جس کے مالک کا نام "بدر” تھا اسی کے نام پر اس جگہ کا نام "بدر” رکھ دیا گیا۔ اسی مقام پر غزوہ بدر کا عظیم معرکہ ہوا اور مسلمانوں کو عظیم الشان فتح نصیب ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے غزوہ بدر کا نام "یوم الفرقان” رکھا۔ اسلام کے 313 جانبازوں نے کفار مکہ کے ایک ہزار کے لشکر کو مات دی حالانکہ ان کے پاس صرف دو گھوڑے تھے یعنی فوج میں سوار سپاہیوں کی تعداد 2 تھی شمشیریں اور تلواریں نہ ہونے کے برابر تھیں۔جبکہ ان کے مقابلے میں لشکرِ کفار 1000 افراد پر مشتمل تھا جن کے پاس 100گھوڑے، 700 اونٹ اور کثیر آلاتِ حرب تھے۔ہجرت مدینہ کے فوراً بعد ہی قریش مکہ نے مدینہ منورہ پر حملے کی تیاریاں شروع کر دی تھیں۔ ہجرت کے محض دو سال بعد ہی انہوں نے مدینہ کی چراگاہ پر حملہ کیا اور لوٹ مار کر کے فرار ہوگئے۔قریش مکہ نے مدینہ کی اس اسلامی ریاست پر حملہ کرنے کا اس لیے بھی فیصلہ کیا کہ وہ شاہراہ جو مکہ سے شام کی طرف جاتی تھی مسلمانوں کی زد میں تھی۔ اس شاہراہ کی تجارت سے اہل مکہ لاکھوں اشرفیاں سالانہ حاصل کرتے تھے۔ نبی کریم کو قریش کے تجارتی قافلے کی خبر ملی جو شام سے واپس آ رہا تھا۔ آپ اپنے اصحابؓ کے ساتھ اس تجارتی قافلے کو تلاش کرنے نکلے، جنگ کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن قریش اس خبر کو سنتے ہی اپنے قافلے کی حفاظت کےلئے امڈ پڑے اور یوں مسلمانوں پر جنگ مسلط کر دی گئی۔جب مدینہ میں قریشی لشکر کی آمد کی اطلاع پہنچی تو رسول اللہ نے صحابہ کو مشاورت کیلئے طلب کیا، مہاجرین نے اپنی جاں نثاری کا یقین دلایا۔اس غزوہ میں مومنین کے جوش جہاد کا یہ حال تھا کہ ایک صحابی عمر بن جامؓ کھجوریں کھا رہے تھے۔ انہوں نے حضور اکرم کا اعلان ”آج کے دن جو شخص صبر و استقامت سے لڑے گا اور پیٹھ پھیر کر نہ بھاگے گا وہ یقینا جنت میں جائے گا“۔ سنا تو کھجوریں پھینک دیں اور فرمایا ”واہ واہ میرے اور جنت کے درمیان میں بس اتنا وقفہ ہے کہ یہ لوگ مجھ کو قتل کر دیں۔“ یہ کہہ کر اتنی بہادری سے لڑے کہ شہید ہوئے اور چند لمحوں میں جنت کا فاصلہ طے کر لیا۔ میدان کارزار خوب گرم تھا قریش کے مغرور آہن پوش لوہے کے لباس سمیت کٹ کٹ کر گر رہے تھے۔ مسلمان بھی خود داد شجاعت دے رہے تھے۔ غزوہ بدر اسلام اور کفر کا پہلا اور اہم ترین معرکہ ہے اس سے دنیا پر واضح ہو گیا کہ نصرت الٰہی کی بدولت مومنین اپنے سے کئی گناہ فوج کو شکست دے سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں سو مومنوں کو ہزار کافروں پر فتح کی بشارت دی۔ غزوہ بدر میں شامل مسلمانوں نے جس قوت ایمانی کا مظاہرہ کیا اس کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ باپ بیٹے کے خلاف اور بیٹا باپ کے خلاف۔ بھانجا ماموں کے خلاف اور چچا بھتیجے کے خلاف میدان میں آیا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے ماموں کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا۔ حضرت ابوبکرؓ کے بیٹے عبد الرحمن جو قریش کی طرف سے جنگ میں شریک ہوئے تھے۔ اسلام لانے کے بعد ایک دفعہ حضرت ابوبکرؓ کو بتایا کہ جنگ میں ایک مرتبہ آپ میری زد میں آ گئے تھے لیکن میں نے آپ پر وار کرنا پسند نہ کیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا خدا کی قسم اگر تم میری زد میں آجاتے تو کبھی لحاظ نہ کرتا۔ حضرت حذیفہؓ کا باپ عتبہ بن ربیعہ لشکر قریش کا سپہ سالار تھا اور سب سے پہلے قتل ہونے والوں میں شامل تھا۔ اس جنگ کاایک اور پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں نے بہت نظم و ضبط سے دشمن کا مقابلہ کیا اور اپنی صفیں نہیں ٹوٹنے دیں۔ جنگ کے خاتمے پر خدا اور رسول کے حکم کے تحت مال غنیمت کی تقسیم ہوئی۔ مال غنیمت کی اتنی پر امن اور دیانت دارانہ تقسیم کی مثال کم ہی ملتی تھی۔ القصہ مسلمانوں کے تقویٰ اور اطاعت رسول کی وجہ سے ان کی برتری روز روشن کی طرح ثابت ہو گئی اور کفار کے حوصلے پست ہوئے۔ جب کہ مسلمانوں کا اللہ پر توکل بہت بڑھ گیا۔بدر کا معرکہ مشرکین کی شکست فاش اور مسلمانوں کی فتح مبین پر ختم ہوا اور اس غزوہ میں چودہ مسلمان جن میں چھ مہاجرین اور آٹھ انصار شہید ہوئے اور مشرکین کو بھاری نقصان اٹھانے کے ساتھ ساتھ ستر شہسوار،کمانڈر اور سردار مارے گے اور ستر قید کئے گے۔جنگ کے اختتام پر رسول اللہ مقتولین قریش کے پاس کھڑے ہو کر فرمایا "تم لوگ اپنے نبی کے لیے کتنا برا کنبہ اور قیبلہ تھے، تم نے مجھے جھٹلایا جبکہ اوروں نے میری تصدیق کی ،تم نے بے یارومددگار چھوڑا جبکہ اوروں نے میری تائید کی ،تم نے مجھے نکالا جب کہ اوروں نے مجھے پناہ دی۔اس کے بعد آپ نے حکم دیا کہ انہیں گھسیٹ کر بدرکے ایک کنویں میں ڈال دو ۔ آپ نے تین دن میدان بدر میں قیام فرما کر مدینہ واپس روانہ ہوئے۔قیامت تک زندہ رہنے والی اس امت میں شہدائے بدر وہ خوش قسمت گروہ ہے جس کی نصیب حاصل کرنے کی خواہش ہی کی جاتی رہے گی۔روایات کے مطابق یہ لوگ جب جنت میں داخل کیے گئے اور نعمتیں دیکھ کر حیران ہو گئے اور اللہ تعالی سے کہنے لگے ہمیں تھوڑی دیر کے لیے دنیا میں بھیج دے ۔ہم پیچھے رہ جانے والوں کو تیری جنت کے بارے میں کچھ بتا دیں۔اللہ تعالی نے جواب دیا کہ یہ میری سنت کے خلاف ہے۔پھر انہوں نے کہا کہ اچھا ہم میں سے کسی ایک کو بھیج دے اس پر بھی انکار ہوا تو تب انہوں نے عرض کی اے بار الہ ہمارا پیغام ان تک پہنچا دے چنانچہ یہ آیات نازل ہوئیں :جو لوگ اللہ تعالی کی راہ میں قتل ہوئے انہیں مردہ نہ سمجھو ،وہ تو حقیقت میں زندہ ہیں اپنے رب کے پاس رزق پا رہے ہیں جو اللہ تعالی نے انہیں دیا ہے اس پر خوش و خرم ہیں اور مطمئن ہیں اور پیچھے رہ جانے والوں کو خوشخبری دے رہے ہیں کہ ان کےلئے نہ کوئی خوف ہے اور نہ کوئی غم۔تاقیامت اہل ایمان جس طرح بدری صحابہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے رہیں گے اسی طرح فرشتوں میں بدری فرشتوں کوقدر کی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے۔ بدری فرشتے وہ ہیں جنہوں میں میدان بدر میں مسلمانوں کی مدد کی تھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے