کالم

1857ءکی جنگ آزادی

گزشتہ سے پیوستہ
جنگی چال کے طور پر مجائدین منتشر ہو کر جنگل کی طرف چلے گئے۔ برطانوی فوج نے ظلم کی انتہا کرتے ہوئے گاﺅں دھامرہ کو آگ لگا دی۔بیس مجاہدین کو قید کر کے اور سات سو مویشیوں کو اپنے ساتھ اپنے جنگی ہیڈ کواٹرگوگیرہ لے گئے۔تلاشی کے دوران سفاک انگریزوں نے پنڈی شیخ موسیٰ کے علاقے میں آگ لگا دی۔اس ظلم کیخلاف کھرل قبیلے کے لوگ جمع ہوئے اور انگریز کے خلاف کاروائی میں شدد پیدا کی۔ اکیس ستمبر کو آخری مقابلہ مجاہدین دھامرہ گاﺅں سے پانچ میل دور کشکوری کے قریب جنگل میں چلے گئے ۔
اس دوران وٹو قبیلے کے لوگ بھی مجاہدین سے آملے۔ جنگل گھنا تھا اس لیے انگریز کو لڑائی میں دشواری پیش آئی۔ اس جنگ کے دوران انگریز کے پندرہ سے سولہ سواروں کے قتل پر سراسیمگی پیدا ہوئی۔لڑائی میں سارنگ کھرل اور دیگر لوگ شہید ہوئے۔ مسلمان دشمن ایک سکھ نے احمد کھرل کو نماز پڑھتے ہوئے شناخت کیا اور گلاب سنگھ نے گولی چلا کر سپریم کمانڈر کو شہید کر دیا۔
برکلے مسلم دشمنی میںاحمد کھرل کا سر تن سے جدا کر کے ساتھ لے گیا۔ اس کے سر کو گوگیرہ جیل میں رکھا گیا۔ روایت کے مطابق جیل کے پہرا داروں میں ایک پہرا دار احمد کھرل کے گاﺅں دھامرہ کا تھا۔ اس کو خواب میں احمد کھرل آیا اور کہا انگریز میرا سر ولایت لے جانے چاہتے ہیں جبکہ میرا سر اس مٹی کی امانت ہے۔موقع ملتے ہی اس نے اپنی ڈیوٹی کے دوران احمد کھرل کا سر ایک گھڑے میں رکھ کر گاﺅں دھامرہ لے گیا۔ اس نے احمد کھرل کی قبر میں اس سر کو دفنا دیا۔
برکلے نے جنگل کی طرف پیش قدمی کی مگر مجائدین آزادی کے ایک دستہ نے اس کو قتل کر دیا۔ برکلے کے پچاس سے زاہد سپاہی اس لڑائی میں مارے گئے۔ برکلے کے قاتل مجاہد مراد نے اِس کا سر کاٹ کر اپنے گاﺅں جلھن لے گیا اور کہاکہ ہماری قسمت میںجو لکھا ہے وہ توہوگا، مگر برکلے اب گوگیرہ میں کبھی بھی عدالت نہیں لگا سکے گا۔ رائٹر تراب الحسن سرگانہ کی کتاب ”پنجاب اینڈ وار آف انڈ یپنڈس 1857.1858“ کے مطابق یہ لڑائی پنجاب کے علاقے کمالیہ،پنڈی شیخ موسیٰ، سید والا، ہڑپہ، چیچہ وطنی، تلمبہ، سرائے سدھو، شور کوٹ، جمیر، سادھوکے، قبولہ اور پاک پتن کے علاقوں میں لڑی گئی۔سپریم کمانڈر احمد کھرل کے مجاہدین سقوط دہلی سے بھی مایوس نہیں ہوئے تھے۔
لاہور سے ملتان تک تقریباً سوا لاکھ سے زاہد مجائدین اس جنگ میں شریک ہوئے تھے۔تاریخ سے معلومات ملتی ہیں کہ ایک مسلمان میجر برکت علی کو لکھے گئے خطوط سے معلوم ہوتا کہ بہاول فتیانہ، صلابت ترہانی، سارنگ کھرل اور ویہنی وال نے اس کو انگریزوں کو چھوڑ کر مجائدین سے ملنے کا کہا تھا۔ اسی طرح بہاول پور کے بادشاہ کو بھی مجاہدین کا سربراہ بنے کے خطوط لکھے گئے تھے۔ یہ بھی تاریخ میں لکھا کہ اس علاقے کے گدی نشین، جاگیردار، سردار ںنے اپنی مسلمان قوم سے غداری کرتے ہوئے، مجائدین آزادی کو پکڑ پکڑ کر شہید کیا اور انگریزوں کے حوالے کیا۔ اس کے عوض جاگیریں اور سالانہ پنشن اور خان بہادر کے اعزازات حاصل کیے ۔انگریزوں نے مجاہدین آزادی کو پھانسیوں کی سزائیں، توپوں کے سامنے گھڑا کر کے اڑا دینے ، اور کالا پانی، دور درازجزائر انڈومان میں قید کی سزائیں سنائیں۔
عوام جہاںغداروں سے نفرت کرتے ہیں۔ وہاں مجائدین پر ان مظالم کہانیاں آج بھی شاعری کی ایک صنف ڈھولے اور دیگر میں محفوظ ہیں۔ لوگ اکثر یہ واقعات گنگناتے رہتے ہیں۔ سپریم کمانڈر رائے احمد خان کھرل کے پوتے احمد علی خان کھرل نے ان کے مقبرے کی تزین آرائش کی ہے۔ اللہ کرے ان کی قبر تک سڑک بھی پکی کر وا دیں کیونکہ رائٹر تراب الحسن سرگانہ کی کتاب ”پنجاب اینڈ وار آف انڈیپنڈس 1857.ئ1858 ئ“ کو پڑھ کردنیا سے جنگ آزادی1857ءکے سپریم کمانڈر، رائے احمد خان کھرل کی قبر کی زیارت کے لیے اہل دل آتے رہتے ہیں۔ (ختم شد)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے