کالم

19 جولائی اور یوم الحاق

تنازعہ کشمیر جنوبی ایشیا کا وہ رستہ ہوا ناسور ہے جو اب تک لاکھوں کشمیریوں کی جان لے چکا ہے۔جبرواستبداد کی اس داستان کا ورق ورق لہو لہان اور چھلنی ہے۔تقسیم ہند کے وقت ریاست جموں و کشمیر کی بھاری مسلم اکثریتی آبادی نے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ جائیں گے، انڈیا کے ساتھ جائیں گے یا خود مختاری اپنائیں گے۔اس کا فیصلہ کشمیری قیادت نے باہم مشاورت کے بعد طے کرنا تھا۔اس ضمن میں سرینگر میں سردار ابراہیم خان کی رہائش گاہ پر 19 جولائی 1947 کو کشمیر کے پاکستان سے الحاق کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی مگر انڈیا کو یہ فیصلہ ہضم نہ ہوا اور ڈوگرہ حکومت سے سازباز کر کے انڈین فوج کو کشمیر میں جبری طور پر داخل کر دیا گیا اور مسلم ریاست کو مقبوضہ بنا لیا گیا۔19 جولائی کے دن کشمیری عوام کی جانب سے سری نگر میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے جو تاریخی قرارداد منظور کی گئی اس میں جموں و کشمیر کو پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کیا گیا تھا۔الحاق کی مذکورہ قرارداد کے مطابق 80 فیصد مسلم آبادی، ریاست کی زبان، ثقافت اور ریاست کے پاکستان کے ساتھ ملحقہ تعلقات کی وجہ سے کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق ناگزیر ہے۔اس سب کچھ کے بعد تقسیم ہند کے فارمولہ کے تحت کشمیر نے پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونا تھا۔انڈین فوج کشی کے اس اقدام کے بعد ایک ایسے تنازعے نے سر اٹھایا کہ جس کے نتیجے میں پاک بھارت جنگیں بھی ہوئیں اور اسلحے کی دوڑ بھی شروع ہو گئی۔جبکہ یہ کشیدگی خطے سے نکل کر یو این او تک پہنچ گئی۔بدقسمتی سے اقوام متحدہ کا یہ عالمی ادارہ اب تک اس تنازعے کو حل کرنے میں ناکام چلا آ رہا ہے۔خطے میں عالمی طاقتوں کے سیاسی اور معاشی مفادات کی وجہ سے یو این او عضو معطل کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں 47, 51, 80, 96, 98,122 اور 126 میں لازم کیا گیا تھا اور اب بھی ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کا حتمی فیصلہ وہاں کی آبادی کی مرضی کے مطابق حق خودارادیت کے ذریعے کیا جائے گا۔بھارت نے اقوام متحدہ کے سامنے وعدہ کیا کہ وہ کشمیریوں کو ان کا بنیادی حق خودارادیت فراہم کرے گا تاہم بھارت بعد میں اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹ گیا۔یوں پون صدی سے حل طلب یہ معاملہ عالمی ضمیر کا منہ چڑا رہا ہے۔ہر روز کشمیری ایک جہنم سے گزرتے ہیں اور عالمی طاقتوں کی بے ضمیری پر ماتم کرتے ہیں۔اس تنازعے کو اب تک وہاں کی نوجوان نسل نے زندہ رکھا ہوا ہے جو بھارتی قابض افواج سے بھڑتے رہتے ہیں۔اس خوفناک صورتحال پی بھارتی حکام بے بس دکھائی اور اپنے ہی آئین کے خلاف اقدام اٹھا کر بربریت کا بدترین مثال قائم کر ڈالی۔5 اگست 2019 کو بھارت نے یک طرفہ اقدام سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کیلئے اپنے ہی آئین کے آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35 اے کو کالعدم قرار دے ڈالا۔مودی حکومت یہ سمجھتی ہے زمین فتح کر لینے سے کشمیریوں دل بھی فتح ہو جائیں گے تو یہ اس خام خیالی ہے۔دنیا کا ہر مورخ اور تجزیہ کار اس بات پر متفق ہے کہ تحریکیں کبھی نہیں مرتیں وہ اپنا سفر جاری رکھتی جب تک اسے منزل نہ ملے۔تقسیم ہند کی تحریک سے ہی بھارت سبق سیکھ لے۔مودی سرکار کشمیر میں مسلم اکثریت کو سیاسی طور پر غیر متعلقہ بنانے کے لیے انتخابی منظرنامے، حقائق اور نقشے کو مسخ کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن کشمیری اس منصوبے کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
19 جولائی کو کنٹرول لائن کے دونوں اطراف اور دنیا کے دیگر حصوں میں رہنے والے کشمیریوں کی جانب سے کشمیر کے پاکستان سے الحاق کا دن منایا جاتا ہے۔آج انیس جولائی ہے،اس دن کے منانے کا مقصد بھارت کے غیر قانونی قبضے سے آزادی کے خلاف کشمیریوں کی جدوجہد کی تجدید کرنا ہے۔الحاق پاکستان کا خواب ایک دن ضرور اپنی تعبیر دیکھے گا۔جبر کی رات ضرور ختم ہو گی،رات چاہے جتنی بھی کالی ہو یا طویل دن کو طلوع ہونا ہی ہوتا ہے۔بے شک اس وقت کشمیری ایک تاریک اور طویل رات سے گزر رہے ہیں۔جبر چھی سہہ رہے ہیں،مگر انہیں آزادی کا اجالا دیکھنا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے