پاکستان

1971ء میں میڈیا آزاد ہوتا تو پاکستان کبھی نہیں ٹوٹتا، جسٹس اطہر من اللہ

1971ء میں میڈیا آزاد ہوتا تو پاکستان کبھی نہیں ٹوٹتا، جسٹس اطہر من اللہ

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ 1971ء میں میڈیا آزاد ہوتا تو پاکستان کبھی نہیں ٹوٹتا۔پاکستان بار، سپریم کورٹ بار اور پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کے تعاون سے اعلیٰ عدلیہ کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کی ٹریننگ سے متعلق ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آزاد میڈیا تنقید برائے اصلاح کرتا ہے اس سے ہم اپنی اصلاح کرتے ہیں۔ بحیثیت جج ہم اپنی کوئی ججمنٹ یا کوئی چیز پوشیدہ نہیں رکھ سکتے۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ عدلیہ پر دو طرح کی تنقید ہوتی ہے۔ دانستہ طور پر اگر کوئی فیصلہ دے اُس پر بھی تنقید ہوتی ہے۔ دوسرا میں کسی کو پسند نہیں کرتا اسے قانونی ریلیف دے دیا جائے اس پر بھی تنقید کی جاتی ہے۔ جج کو کسی بھی طرح کی تنقید سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ جج کو بے خوف ہو کر آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنا چاہیے۔ جج جس نے حلف لیا ہوتا ہے وہ تنقید سے ڈر کر فیصلے کرتا ہے تو وہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کر رہا ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ بحیثیت جج ہم پبلک پراپرٹی ہیں۔ کسی جج کو یہ سوچنا بھی نہیں چاہیے کہ وہ کسی کورٹ رپورٹر کو بتا سکے کہ اس نے کیا کرنا ہے۔ سچائی سچائی ہی رہتی ہے۔ جھوٹ جتنا بھی بولا جائے آخر میں جیت سچ کی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1971ء میں میڈیا آزاد ہوتا تو پاکستان کبھی نہیں ٹوٹتا۔اگر سچ بولا جاتا تو نہ پاکستان دو لخت ہوتا نہ لیڈر سولی چڑھتا۔ اظہارِ رائے ہوگا تبھی ہم عظیم قوم بن سکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے