8 اکتوبر 2025 کی صبح زندگی رواں دواں تھی، طلبا کے قدم تعلیمی اداروں کی طرف عازم تھے محنت کش مزدوری کے لیے جانب منزل تھے، پرندوں کی چیچاہٹ حیات او حیات سے جڑی سرگرمیوں کو جاویداں کرنے کا پیغام دے رہی تھی اسی دوران آٹھ بجے کر 52منٹ پر زمین نے کروٹ لی اور زندگی کا رواں پہیہ لڑ کھڑا نے لگا۔ ریکٹر سکیل پر 7.6 پر زلزلہ اور آفٹر شاکش نے 78 ہزار زندگیوں کا چراغ گل کیا 18 ہزار طلبا وطالبات شہید ہوئے، معذور ہونے والوں کی تعداد 18 ہزار بتائی گئی۔ آزاد کشمیر’ خیبرپختونخواہ اور آزاد کشمیر میں بڑی تباہی نے غم اور بے کلی کی جو داستانیں رقم کیں اس پر آج بھی دل خون کے آنسو روتا ہے۔ سعودی عرب’ ترکی’ ایران’ امریکہ ‘ جاپان’ برطانیہ اور فرانس سمیت دنیا بھر سے امدادی سرگرمیوں کے چراغ روشن ہوئے۔ پاکستانیوں نے کشمیری بھائیوں کے لیے جس ایثار او ریکجہتی کا مظاہرہ کیا اس نے جہان عالم کو حیران کر دیا وہ روح کش لمحات تو ختم ہوگئے مگر متاثرین کے زخم مندمل نہ ہوسکے۔ دو دھائی گزرتے کے باوجود حکومتی وعدے ایفا نہ ہوئے۔ حکومتیں بدلتی رہیں مگر متاثرین زلزلے کے مطالبات اور سرکار کے وعدوں کی تکمیل نہ ہوئی یہ درست ہے کہ آزاد کشمیر کی تاریخ میں کئی بار زلزلے آئے، سب سے تباہ کن زلزلہ 8 اکتوبر 2005 کو آیا جس نے خطے کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا۔ ہولناک زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر 7.6 تھی ، محض چند لمحوں میں زندگیاں اور شہر ملبے کا ڈھیر بن گئے۔ مظفرآباد، باغ، راولاکوٹ، بلکوٹ اور دیگر علاقے سانحے کا سب سے زیادہ نشانہ بنے۔ پورے ملک میں سوگ کی فضا چھا گئی، تعلیمی ادارے، ہسپتال، پل اور سڑکیں ملبے تلے دب گئے۔ اس زلزلے نے نہ صرف جسمانی تباہی مچائی بلکہ لوگوں کے دلوں پر گہرے نفسیاتی زخم بھی چھوڑے۔ فورا بعد امدادی کارروائیوں کا آغاز ہوا، لیکن دشوار گزار پہاڑی راستوں اور تباہ شدہ انفراسٹرکچر کی وجہ سے امداد کی فراہمی میں شدید مشکلات پیش آئیں۔ پاکستانی فوج، ریسکیو ٹیمیں، اور عالمی ادارے جیسے اقوامِ متحدہ، ریڈ کراس، اور مختلف غیر ملکی این جی اوز نے متاثرہ علاقوں میں پہنچ کر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بھرپور مدد فراہم کی۔ خیمے، خوراک، ادویات اور ابتدائی طبی امداد متاثرین تک پہنچانے کی کوششیں دن رات جاری رہیں۔ بیرونی ممالک جیسے ترکی، چین، امریکہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی مالی امداد اور تکنیکی معاونت فراہم کی۔ ان مشکل لمحات میں پاکستانی قوم نے یکجہتی کی روشن مثال قائم کی۔ لوگ اپنے گھروں سے کھانا، کپڑے اور دیگر اشیائے ضرورت لے کر متاثرہ علاقوں کی طرف روانہ ہوئے۔ تاہم، بحالی کا عمل سست اور طویل ثابت ہوا کیونکہ لاکھوں لوگ اپنے گھروں سے محروم ہوچکے تھے اور سرد موسم میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنا ایک کڑا امتحان تھا۔ کئی بچے والدین سے محروم ہوئے اور کئی خاندان ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے، جس کا اثر آج تک محسوس کیا جاتا ہے۔2005 کے بعد پاکستان اور آزاد کشمیر حکومتوں نے سانحے سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کی۔ نئے تعمیراتی قوانین بنائے گئے تاکہ آئندہ عمارتیں زلزلہ مزاحم ہوں۔ اسکولوں، ہسپتالوں اور عوامی عمارتوں کو مضبوط بنیادوں پر دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ زلزلہ متاثرہ علاقوں میں اسکولوں کی بحالی اور تعلیم کے فروغ کے لیے خاص پروگرام شروع کیے گئے تاکہ نئی نسل دوبارہ اپنی تعلیم سے جڑ سکے۔ (این ڈی ایم اے (نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ساتھ دیگر ادارے قائم کیے گئے تاکہ کسی بھی آئندہ قدرتی آفت کے وقت فوری ردِعمل دیا جا سکے۔ شہریوں میں آگاہی مہم چلائی گئیں کہ زلزلے کے دوران کس طرح خود کو محفوظ رکھا جائے، اور کمیونٹی کی سطح پر بھی ہنگامی تربیت دی گئی۔ لیکن بدقسمتی سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان اقدامات میں تسلسل نہ رہا، اور عوامی سطح پر احتیاطی تدابیر کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جس کی ضرورت تھی۔ زلزلے کے بعد تعمیراتی کاموں میں بدعنوانی اور تاخیر کے الزامات بھی سامنے آئے جس سے متاثرین کی مشکلات میں اضافہ ہوا۔آزاد کشمیر میں زلزلوں کا خطرہ آج بھی موجود ہے کیونکہ فالٹ لائنز متحرک ہیں اور زمین میں مسلسل حرکات ہوتی رہتی ہیں۔ چھوٹے جھٹکے وقتا فوقتا محسوس کیے جاتے ہیں جو اس حقیقت کی یاد دہانی کراتے ہیں کہ یہ خطہ اب بھی غیر محفوظ ہے۔ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی نے زلزلوں کی پیشگی اطلاع کے نظام میں کچھ ترقی کی ہے، لیکن زلزلوں کی درست پیشگوئی اب بھی ممکن نہیں۔ اس لیے سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ہم اپنے طرزِ تعمیر، منصوبہ بندی، اور ہنگامی ردِعمل کے نظام کو بہتر بنائیں۔ اسکولوں اور سرکاری دفاتر میں سالانہ تربیتی مشقیں کروانا، مضبوط عمارتوں کی تعمیر، اور عوامی آگاہی میں اضافہ ہی وہ اقدامات ہیں جو ممکنہ تباہی کو کم کر سکتے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ قدرتی آفات کو روکا نہیں جا سکتا، مگر ان کے نقصانات کو سمجھداری اور منصوبہ بندی سے کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔اختتاما یہ کہنا بجا ہے کہ آزاد کشمیر کے زلزلے ہمیں ایک گہرا سبق دیتے ہیں کہ قدرت کی طاقت کے آگے انسان کی حیثیت کتنی محدود ہے۔ یہ آفات نہ صرف ہماری جسمانی دنیا کو متاثر کرتی ہیں بلکہ ہماری اجتماعی سوچ اور طرزِ زندگی پر بھی اثر ڈالتی ہیں۔ اگر ہم نے ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کر لیا، تو مستقبل میں کسی بڑی تباہی کو کم کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ زلزلے ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ انسان کو فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر جینا چاہییاور اپنی سرزمین کو محفوظ بنانے کے لیے اجتماعی شعور، سائنسی علم اور انسانی ہمدردی کو یکجا کرنا چاہیے۔ یہی بقا کا راستہ ہے۔