کالم

2022ء،بھارت میں اقلیتوں پر ظلم کا سال

riaz chu

بھارت کی انسانی حقوق کی تنظیم سٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس نے سال 2022ءکو بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت‘ امتیازی سلوک اور ظلم و تشدد کا سال قرار دے دیا۔ سٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس انڈیا کی سالانہ رپورٹ میں بھارت بھر میں اقلیتی برادریوں کے خلاف نفرت پر مبنی متعدد واقعات کو دستاویزی شکل دی گئی ہے ۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ اس سال بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم، نفرت انگیز تقاریر، امتیازی سلوک اور ان کی زندگیوں اور آزادیوں پر حملوں کے بہت سے واقعات سامنے آئے ہیں۔اقلیتوں پر حملوں اور ظلم و تشدد میں ملوث عناصر کا تعلق اکثریتی ہندوبرادری سے تھا یا پھروہ نامعلوم مسلح افراد تھے جن کا بعدازاں ہندوتوا تنظیموں سے تعلق ثابت ہوا۔ رپورٹ کے مطابق مذہبی اقلیتوں سے امتیازی سلوک کے واقعات بھارت کے مختلف حصوں سے رپورٹ ہوئے اور ان تمام واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارت میں ریاستی سرپرستی میں اقلیتوں کے خلاف مظالم کا سلسلہ جاری ہے اور ان میں ملوث عناصر کی ریاستی سطح پر حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ اعلیٰ منتخب عہدیداروں اور حکومتی افراد کی خاموشی نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو احتساب اور انصاف کے عمل میں تاخیر یا اسے روکنے کےلئے مجبور کیا ہے۔مقدمات کے اندراج میں تاخیر اورمتاثرہ خاندانوں کو عصمت دری اور نسل کشی کی دھمکیوں کی وجہ سے ان گھناﺅنے جرائم میں ملوث مجرم جلد رہا ہوجاتے ہیں۔ فسطائی نریندر مودی کی قیادت میں بھارتی جنتا پارٹی کی حکومت ملک میں اقلیتوں پر آرایس ایس کے نظریے کو مسلط کر رہی ہے اور اسکی امتیازی پالیسیوں نے بھارتی اقلیتوں کو دیوار سے لگا دیا ہے۔ دنیا کی نام نہاد سب سے بڑی جمہوریت میں ہندوتوا کے بڑھتے ہوئے بیانیے نے خطرناک رخ اختیار کرلیا ہے جبکہ ملک میں اقلیتوں کو تشدد کا نشانہ بنانا اور ہراساں کرنا روز کا معمول بن چکا ہے۔ مقبوضہ وادی میں بھی قابض نے ظلم و ستم کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو بھارت میں مسلمان‘ سکھوں سمیت اقلیتوں کو حملوں سے بچانے کیلئے آگے آنا چاہیے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس نے کشمیری قیدیوں کی بلاتاخیر رہائی کا مطالبہ کیااور اس عزم کا اعادہ کیا کہ قابض فوج کے جبرواستبداد کے باوجود تحریک آزادی کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ بھارت میں مودی سرکار کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کیخلاف امتیازی سلوک کسی سے ڈھا چھپا نہیں رہا۔ نریندر مودی کی سرپرستی میں اسکی پروردہ آر ایس ایس نے بھارت کو جنونی ہندو ریاست بنا کر رکھ دیا ہے۔اقلیتوں پر تشدد، انہیں ہراساں کرنا جنونی اور متعصب ہندوﺅںکا معمول بن چکا ہے۔ اقلیتوں کو جبراً ہندو دھرم اپنانے پر مجبور کیا جاتا ہے‘ انکی مذہبی آزادی سلب کی ہوئی ہے اور عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔متعصب ہندوﺅں کے مظالم کا شکار سب سے زیادہ مسلمان ہیں جنہیں محض گائے کے ذبح کرنے کے شبہ پر ہی تشدد کا نشانہ بنایا یا شہید کردیا جاتا ہے۔ دوسری طرف ، مقبوضہ کشمیر میں بھی بھارت نے اپنے ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے وہاں اسکی سفاک فوج نے کشمیری عوام کا گزشتہ 75 سال سے جینا دوبھر کیا ہوا ہے۔ محاصرے اور تلاشی کے دوان نوجوانوں کا قتل عام بھارتی فورسز نے اپنا معمول بنایا ہوا ہے جبکہ عفت مآب خواتین کی عزت بھی محفوظ نہیں۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ بھارت یہ ساری غنڈہ گردی سرعام کررہا ہے اور اقوام متحدہ سمیت تمام انسانی حقوق کے علمبردار عالمی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا اور کسی عالمی ادارے نے بھارت کا جنونی ہاتھ روکنے کی کوشش نہ کی تو بھارت کے ہاتھوں عالمی امن کی تباہی نوشتہ دیوار ہے۔ یوں تو مودی حکومت اور ہندوتوا کی طاقتوں نے جو خوف کا ماحول پیدا کردیا ہے اس سے تمام ہی اقلیتی فرقے خوف زدہ ہیں لیکن مسلمانوں کی صورت حال کچھ زیادہ خراب ہے۔حکومت بھارت میں مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کے لیے منصوبہ بند کوششیں کررہی ہے۔ این آر سی اور سی اے اے جیسے قوانین اسی لیے لائے گئے ہیں۔ اترپردیش میں انسداد تبدیلی مذہب کا قانون اسی سلسلے کا حصہ ہے اور مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر اقدامات شروع کردیے گئے ہیں۔حکومت نے مسلمانوں کے بارے میں تو یہ طے کردیا ہے کہ وہ ملک کے اندر ملک کے دشمن ہیں اور انہیں دوسرے درجے کی شہریت تسلیم کرنی ہوگی ورنہ انہیں حکومت اور حکومت کے حامیوں کی طرف سے مزید مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنے کےلئے تیار رہنا چاہئے ۔ بابری مسجد انہدام کے کیس پر سپریم کورٹ نے جو فیصلہ سنایا تھا، اس کے خلاف بھی پرامن ستیہ گرہ ہونی چاہیے تھی کیونکہ یہ فیصلہ بھارتی آئین اور بین الاقوامی قوانین کے یکسر خلاف ہے۔بھارت میں 230 ملین مسلمان ہیں اگر ان میں سے پانچ لاکھ بھی ستیہ گرہ کرکے جیل چلے جاتے تو حکومت قانون پر نظر ثانی کیلئے مجبور ہوجاتی۔ یہ ایک افسوس ناک صورتحال ہے کہ بھارتی مسلمانوں میں تنظیم، دوراندیشی اور عزم و حوصلے کی کمی ہے۔ حالانکہ ملک میں بہت سے پارلیمانی اور اسمبلی انتخابی حلقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے یا وہ فیصلہ کن پوزیشن رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود مسلمان انتخابات میں وہاں سے منتخب نہیں ہوپاتے ہیں بلکہ آپس میں لڑکر سیکولر مخالف اور ہندوتوا کی طاقتوں کو تقویت فراہم کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri