23 ستمبر کا دن مملکت سعودی عرب کی سالگرہ کے طور پر ہر سال منایا جاتا ہے۔اس دن شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن نے ملک کو متحد کرکے ایک مملکت کا اعلان کیا تھا۔اس دن اس خطہ زمین کی وحدت کا اعلان کرکے پورے جزیرالعرب پر کلمہ طیبہ کا جھنڈا لہرا دیا گیا تھا۔اس ملک کا قیام اللہ اور اس کے رسول برحقۖ کے دین کے قیام کیلئے عمل میں لایا گیا شریعت کا باقاعدہ نفاذ کرکے حاکم اور محکوم دونوں کو شریعت کے احکام کے تابع کردیا گیا۔23ستمبر کو باضابطہ طور پر ملک کی تشکیل دی گئی تھی۔جس کا آئین قرآن کریم کو تسلیم کیا گیا تھا۔اس عظیم الشان مملکت کے قیام کے بعد شاہ عبدالعزیز کا انتقال 1953 میں ہوا۔مملکت سعودی عرب براعظم ایشیا کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔رقبہ ٩ لاکھ مربع میل اور آبادی تقریبا تین کروڑ اسی لاکھ پر مشتمل ہے۔سعودی عرب کو پورے عالم اسلام میں نہایت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔سعودی فرمانروائوںکو اس وجہ سے عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کہ انہوں نے نہ صرف مشاعر مقدسہ کو بے حد توسیع و ترقی دی ہے بلکہ پوری سرزمین کو اقتصادیات ،عمرانیات ،تعلیم و تمدن ،سماجی اور سیاسی شعبوں میں بے حد ترقی دی ہے۔ شاہ عبدا لعزیزنے جب 1932 میں سعودی مملکت کے قیام کا اعلان اسلامی قوانین کی بنیاد پر کیا تو لوگوں کو مالی و جانی تحفظ حاصل ہوا ۔ دوسرے حکمران کی حیثیت سے جب شاہ سعود بن عبد العزیز نے اقتدار سنبھالا تو شاہ فیصل کو ولی عہد ،وزیر خارجہ اور وزیر اعظم کا منصب سونپاگیا۔بعد ازاں بیماری کی وجہ سے شاہ سعود نے اقتدار شاہ فیصل کے حوالے کر دیا۔شاہ فیصل شہید اعلی پایہ کے مدبر ، عالمی سیاسیات کے ماہر اور اسلام کے سچے شیدائی تھے۔ مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا ان کی سب سے بڑی خواہش تھی۔ انہوں نے اسلام کی نشا ثانیہ کیلئے ایک ٹھوس اور وسیع بنیاد مہیا کی تھی۔انتھک کوشش سے سعودی عرب کو ترقی یافتہ ممالک کے ہم پلہ بنا دیا۔چنانچہ ان کو نہ صرف سعودی عرب کا بلکہ پورے عالم اسلام کا عظیم ترجمان اور رہنما سمجھا جانے لگا۔ ان کی کوششوں سے پاکستان اور سعودی عرب کے برادرانہ تعلقات میں اضافہ ہوا اور بے حد استحکام پیدا ہوا ۔ شاہ فیصل کی شہادت کے بعد 29مارچ 1975 کو شاہ خالد بن عبدا لعزیز نے فرمانرواکی حیثیت سے عنان اقتدار سنبھالی ۔ وہ بے حد اعتدال پسند تھے مگر اسرائیل کے معاملے میں سخت رویہ رکھتے تھے ۔ پاکستان سے بے پناہ محبت رکھتے تھے ۔ان کی وفات کے بعد شاہ فہد بن عبد العزیز 12جون 1982 کو سعودی عرب کے چوتھے فرمانروا بنے۔ شاہ فہد میں قائدانہ صلاحیتیںپہلے ہی موجود تھیں۔اسلامی کانفرنس میں اپنی صلاحیتوں کو مزید اجاگر کیا۔ خلیج تعاون کونسل کے ممالک کا مرکزی دفتر ریاض میں قائم کیا۔پاکستان سے دوستانہ تعلقات میں اضافہ ان کا عظیم کارنامہ تھا۔ شاہ فہد کا ایک عظیم کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے مدینہ پاک میں قرآن پرنٹنگ پریس قائم کر کے دنیا کی تمام زبانوں میں اسکا ترجمہ کیا اور آج تک دنیا کے مختلف ممالک میں قرآن کے نسخے بھیجے جا رہے ہیں۔ 5 200 میں شاہ فہدبن عبدالعزیز کی وفات کے بعد ان کے بھائی شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز سعودی عرب کے فرمانروا بنے ۔ انہوں نے سعودی عرب کی ترقی کے سفر کو جاری رکھا۔ شاہ فہد بن عبدالعزیز کے بعد شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کا دور ملکی ترقی بالخصوص حرمین شریفین کا سنہری دور کہلاتا ہے ۔ 2015 میںشاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کی وفات کے بعد انکے بھائی شاہ سلمان بن عبدالعزیز سعودی عرب کے فرمانروا بنے ۔ 2017 میں سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اپنے سگے بھتیجے محمد بن نائف کو ولی عہد کے منصب سے ہٹا کر اپنے سب سے چھوٹے بیٹے محمد بن سلمان کو ولی عہد نامزدکیا۔ولی عہد محمد بن سلمان اپنی سماجی، ثقافتی اور معاشی اصلاحات کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔معاشی میدان میںاصلاحات کیلئے محمد بن سلمان نے اپنے ویژن 2030 کا سب سے اہم اور دلچسپ منصوبہ 130کلومیٹر لمبائی پر محیط جدید ترین ٹورسٹ سٹی نیوم کا قیام شائد دبئی کے قیام کے بعد اپنی طرز کا منفرد منصوبہ ہے۔ کورونا وبا کے بعد عالمی معاشی بحران اور روس یوکرین جنگ کے بعد سعودی عرب کا روس کی طرف جھکائو، تیل کی پیداوار پر مضبوط کنٹرول اور قطر کے ساتھ سفارتی روابط کی بحالی نے سعودی ولی عہدووزیراعظم محمد بن سلمان کو تین سالہ سفارتی تنہائی کے بعد صف ائول کے عالمی رہنمائوں کی صف میں لا کھڑا کیا۔ دو سال کی کورونا پابندیوں کے بعد سعودی حکومت نے حج انتظامات کو بہتر بنانے کی بھر پور کوششیں کی ہیں ۔ موجودہ سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی جو پاکستان کیلئے ہمیشہ نرم گوشہ رکھتے ہیں اور پاکستانی عوام میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ بنیان المرصوص کی کامیابی کے بعد پوری دنیا بالخصوس عالمِ اسلام میںپاکستان کا وقار بلند ہوا ہے ، حالیہ دنوں میں پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف اور سعودی عرب کے ولی عہدو وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان کے درمیان تاریخ کا بہت ہی اہم معاہدہ طے پایاہے اس معاہدہ میں انکے برادرِ محترم وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان ال سعوداور فیلڈ مارشل پاکستان سید عاصم منیربھی موجود تھے معاہدہ کی رو سے اگر پاکستان پر کسی ملک نے حملہ کیا تو وہ سعودی عرب پر اور اگر سعودی عرب پر حملہ کیا تو وہ پاکستان پرحملہ تصور ہو گا اس رو سے دونوں ممالک اس دفاعی معاہدے میں منسلک ہو گئے ہیں یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔سعودی عرب برادرِ اسلامی ملک ہے ہم سعودی حکومت کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں کہ وہ ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں۔