پاکستان میں جب سے جنرل الیکشن 2024 ءہیں سکون اِک پل بھی نہیں ہے ۔ فارم 45اور47کے تنازع نے جنرل الیکشن کے سارے رنگ ہی پھیکے کر چھوڑے ہیں اور اکثریت کاخیال ہے کہ یہ فارم47کی حکومت ہے جسے جبراً عوام پرمقتدرحلقوں نے اپنے مفادات واغراض کیلئے مسلط کیا ہوا ہے ۔وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ یہ سب فارم 45والوں کے حقوق پر یکسر ڈاکہ ڈال کرکیا گیا ہے ۔بہت سے ملکی رہنماﺅں کے بیان ریکارڈ پر ہیں جو بتاتے ہیں کہ الیکشن کیسے ہوئے ہیں اور فارم 45اور47کی اصلیت کیا ہے؟ صورتحال تو اس حد تک خراب رہی ہے کہ چند ایک جیتے ہوئے امیدواران نے بھی میڈیا پر آکر برملا کہا کہ ہم نہیں جیتے ہمیں جتوایاگیا ہے ،ہم یہ سیٹ نہیں لے سکتے ۔یہ وہ معاملات تھے کہ جنرل الیکشن 2024 ءکی شفافیت پر سوال اٹھا گئے اور پورے الیکشن پروسیس کو مشکوک بنا گئے ہیںجس پر احتجاج بھی ہوا مگر نظر انداز کردیاگیا ہے اور اب تو اس پر پانی پھیر دینے کی پوری کوششیں جاری و ساری ہیں۔یہ جو صورتحال اب الیکشن کمیشن کے تحت الیکشن ٹربیونل تشکیل کی بنادی گئی ہے ،الیکشن نتائج حقیقی بتانے سے زیادہ الیکشن چوری اور دفنانے والی بنادی گئی ہے۔پہلے پہل تو بڑی امید تھی کہ الیکشن ٹربیونل سے انصاف ہی ہوگا مگر اب اس حوالے سے بھی فضاءاورافراد میں بے یقینی کی سی صورتحال کا سامنا ہے، اس نئی صورتحال اور آرٹیکل 63A فیصلہ کالعدم نے پی ڈی ایم حکومت کے تن مردہ میں ایک نئی جان سی ڈال دی ہے اور اس ٹولے کی مرتی امیدوں کو ایک بار پھر سے جگادیا ہے ۔ ایک لندن پلٹ اہم شخص جو مایوس اور ہارے دل کے ساتھ واپس جانے ہی والے تھے اور وہاں اپنی ناکامی کا رونا کیسے رونا ، کا سکرپٹ بناہی رہے تھے کہ اب بدلتی صورتحال میں شاید کہ مل جائے کوئی اچھی خبر اور بن جائے ان کی بات کیلئے پاکستان میں ٹھہر گئے ہیں۔ اس آئینی ترمیم کے حوالے سے کیا بنتا ہے ، آنے والے چند روز میں واضح ہوجائے گا ۔ یہ لوگ الیکشن ٹربیونل کے فیصلوں کے ذریعے سے اِکا دُکا سیٹیں پانے کے باوجود بھی 224کا مطلوبہ ہندسہ حاصل نہ کرپانے اور پھرآئینی ترمیم پر فضل الرحمن کے بھی نہ ماننے کے بعد سے تو مسلسل مرگ بستر پر تھے کہ ایک پریکٹس اینڈ پروسیجر صدارتی ترمیمی آرڈنینس سے اچانک صحتیاب ہوگئے اور کچھ مہربانوں کے ”انصاف“ 63Aشق کالعدم کے فیصلہ کے بعد پھر سے چھانگا مانگا ماحول بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور اس پر شاداں و فرحاں سے نظر آتے ہیں مگر ساتھ ساتھ یہ دھڑکابھی لگاہواہے کہ اتنا کچھ کرنے اور کروانے کے باوجود بھی اگر پھر بھی اس آئینی ترمیم کو پاس کروانے میں ناکام ہوگئے تو پھر کیا کریں گے ۔ اب کہ بار تو ان کو جہاں سے ہمیشگی ایڈ ملتی تھی اُن کے تمام تر تعاون ،سہولتوں اور آفروں کے باوجود بھی گیم بن نہیں رہی ہے ،یہ یکسر ناکام ٹھہرے ہیں ۔ ایسے میں تمام حربے ، طریقے ، داﺅ پیچ آزمانے کے بعد اگر کوئی تھوڑی سی گیم آرٹیکل 63Aکالعدم کے بعد ان کے ہاتھ میں آئی تو دوسری پارٹیوں کے ایم این ایز اور سنیٹرز کو کیسے منائیں جیسے مسائل سے دوچارنظر آتے ہیںہرمعرکہ کو پلک جھپکنے میں ہی سرکرنے کے موڈمیں ہیں مگر وہ مقام ان کے پاس ہے ہی نہیں ہے جس کے سبب حال و بے حال سے کبھی کسی در ،کبھی کسی در،کبھی کسی در پھرتے ہیں۔اوپر سے معاملہ یہ ہے کہ انہوں نے 224کا ہندسہ عبور کرنے کیلئے جو سوچا تھا وہ کر نہیں سکے ہیں اور جو کرسکے ہیں اس پر کوئی خاص بات نہیں بن رہی ہے اور ٹائم ہے کہ اس کی بھی اُلٹی گنتی شروع ہے ،مسلسل سرکتا جارہا ہے جس کا اِن کو پورا ادراک ہے مگرکوئی بن نہیں پڑتی کہ معاملہ یکسر خراب ہے ۔ دراصل عوام اس آئینی ترمیمی مسودے کی تما م تر حقیقتوں کو اچھی طرح جان گئی ہے اور مسلسل کئی روز سے سڑکوں پر ہے ۔ایک تو یہ احتجاج معاملہ پی ڈی ایم کی جان کھائے ہوئے ہے ، اس سے تو خیرنمٹ ہی لیتے ان کی خراب قسمت کہ شنگھائی کانفرنس تاریخ انہیں دنوں میں ہی آگئی کہ جس سے بہرحال بحیثیت ریاست ہر صورت نمٹنا ہے۔ ایسے میں آئینی ترمیمی مسودہ شنگھائی کانفرنس سے پہلے پارلیمنٹ میں پیش کردیتے ہیں تو پھر بھی حالات خراب اور عوام سڑکوں پرہوگی اور شنگھائی کانفرنس کے بعد لاتے ہیں تو پھر بھی حالات کنٹرول میں نہیں رہتے ہیں۔پی ڈی ایم سرکاربہت بری پوزیشن میں ہے ۔ آئینی ترمیمی مسودہ بھی منظورکرواناہے اورشنگھائی کانفرنس بھی کروانی ہے۔ ہا ں آخر میں صرف ایک ہی صورت بچتی ہے کہ کام بن جائے اور وہ فارمولہ یہ ہے کہ میئر کراچی انتخاب فارمولا استعمال کریں ۔ وہاں پر تو ممبروں کو بٹھایا تھا یہاں پر دوسری جماعتوں کے ارکان پارلیمنٹ کو ساتھ لے جائیں تو آئینی ترمیمی مسودہ پاس ہو جائے گا ۔ یہ بھی نہ چلے تو باہم رضامندی سے ”منڈی مویشیاں “ لگا کر ان افراد کے ”ضمیر جگا کر“ پیسوں سے پوراتول کر بھی یہ بازی جیتی جاسکتی ہے۔اس آئینی ترمیمی مسودے کو ”اوروں “ سے وصول در وصول کرنےوالوں اور اس آئینی ترمیمی مسودہ کے ٹکڑے بانٹنے والوں سے زیادہ یہ بات اور یہ رازاورکون جان سکتاہے۔