ہم غلط سمت میں مڑ کر ہمیشہ خود کو صحیح ثابت کرنے کیلئے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں ۔ اگر کوئی غلط قانون سازی کرتا یا کراتا ہے جو جمہوریت عام عوام کے حق میں نہیں آمریت کی طرف قدم ہو تو کیا اسکے محرک اور اسکے معاون قابل مواخذہ کیوں نہیں۔فرض کریں کہ کابینہ قانونی مسودہ پاس کرے کہ آج سے پاکستانی قوم بھٹو یا شریف فیملی کی غلام ہیں اور سینٹ قومی اسمبلی قانون اسکو دو تہائی اکثریت سے پاس کرے اور صدر اس پر دستخط کر دیں تو یہ درست اور قابل عمل ہو گا؟ ۔ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حق ہے لیکن کیا پارلیمنٹ کو عوام کے حقوق اور انکی آسانی کو نظر انداز کر کے کسی مخصوص لابی کے مفادات کا تحفظ کرنے کیلئے قانون سازی کا حق ہے ۔ اگر ایسا ثابت ہو تو کیا یہ پارلیمنٹ کا عمل درست اپنے اختیار کا صحیح استعمال ہے ؟۔ پارلیمنٹ کو ہر ادارہ میں مداخلت کرنے یا اداروں کو سیاسی مفادات کیلئے استعمال کرنا درست اور آئینی ہے؟ ۔ سیاستدان کا احتساب ہونا چاہیے لیکن کیا کسی جج کے غلط فیصلہ کا احتساب بھی آئین اخلاقیات اور انصاف کے تقاضوں کو مضبوط کرنے کیلئے ضروری ہے ۔ کیا کسی وکیل کا جج کو مس گائیڈ کرنا قابل احتساب ہے ۔ ہم جج بن کر غلط ججمنٹ کریں یا ججمنٹ کو غلط سمت دیں کو انصاف احتساب نہیں ۔ انصاف کی بنیاد پولیس اور کسی تنازعہ کیس کی بنیاد ایف آئی آر میں ردوبدل کرنے پر کوئی احتساب نہیں ۔ عوام کیلئے تو لوکل ماتحت عدلیہ اور پولیس کے نظام کی درستگی ضروری ہے نہ کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تعیناتی یا آئینی بینچ کے قیام میں ان کے مسائل کا حل ہے ۔ قائد اعظمؒ نے آئینی عدلیہ کی جو بات کی تھی وہ آئینی عدلیہ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ ہی کی بابت فرمایا تھا ۔ کسی تیسری عدلیہ یا ان کو بائی پاس کر کے یا سپر سیڈ کرنا کہیں بھی نہیں ہے ۔ ہائیکورٹ اور ماتحت عدلیہ کی اپیلوں کی شنوائی اور اس میں متناسب نمائندگی کی بنیاد پر تعیناتی سے عدلیہ کو اعتدال میں رکھنا مقصود تھا ۔ یہ بات کیوں نہیں کی جاتی کہ ہر ادارے میں سیاسی عمل دخل کس لیے ہے ۔ اس سیاسی مداخلت سے ادارے کمزور اور شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں ۔ اداروں کی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے ۔ اداروں کو سیاسی چھتری سے آزاد اصولوں کے تابع کر کے ان کو کارکردگی کیلیے کیوں نہیں چھوڑا جاتا ۔جب سیدھا طریقہ سنئیر جج ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ بن جاتا تھا تو ٹہرے پانی میں نہ صرف پتھر مارا گیا بلکہ اس میں سیاسی آلودگی کو شامل کر کے عدلیہ کا کردار بھی گدلا کیا گیا ۔ صرف اس لیے کہ آنے والے ججز پر اندھا اعتماد نہیں کیا جاسکتا ۔ شبہ ہے کہ وہ کہیں انصاف کا منہ ہماری سمت نہ موڑ دیں ۔ یہ بھی ممکن تھا کہ پرانے کیس کہیں زندہ نہ ہو جائیں جیسے بھٹو کیس زندہ کر کے بھٹو کو قتل کی منصوبہ بندی والا مجرم سے سیاسی شہید بنایا گیا ۔ شکوک تو پیدا ہوتے ہیں اور جس طرح راز داری اور جلد بازی میں کیا گیا یقینا اس میں کچھ تو چھپایا گیا ۔ ایک انتہائی سادہ طریقہ کو کس لیے اتنا پیچیدہ کیا گیا ۔ اداروں کو سیاسی کنٹرول میں کیوں لیا جا رہا ہے ۔ اس سے پہلے پی آئی اے ریلوے سٹیل مل سب اداروں کو سیاسی مداخلت نے تباہ کیا ہے۔کیا سیاستدان اپنے مفادات کیلئے ہر غلطی کر کے بھی مسیحا رہنما ملت ہی سمجھے جائیں ۔ ایک اتھارٹی جج منتخب کرتی ہے جس میں جج اور سیاسی اراکین شامل ہیں تو اس اتھارٹی کے ارکان اس کام کے اہل تھے جب ہی منتخب کیے گئے ۔ جنہوں نے منتخب کیا وہ بھی عالی دماغ تھے ۔ یہی اہل اور عالی دماغوں کے منتخب کردہ انتہائی اہل اور عالی دماغ اچانک چیف جسٹس بننے کیلئے نامناسب یا نااہل کیسے اور کیوں ہو جاتے ہیں ۔ اسکا دوسرا رخ یہ ہے کہ یا منتخب کرنے والے نااہل اور میرٹ کے قاتل ہیں یا پھر انکے مفادات کو ایک اہل ایماندار شخص سے خطرہ ہے ۔ صدر وزیر اعظم کسی ایڈوائس پر کسی کو جوابدہ نہیں یہ آمریت اور بادشاہت کا قانون ہے جمہوریت میں عوامی نمائندہ جوابدہ اور قابل احتساب ہوتا ہے ۔ اسلامی شریعت میں حکمران جج کے سامنے جوابدہ ہے ۔ آئین کا دیباچہ کہلانے والی قرارداد مقاصد کے تحت ایسا کوئی قانون پاکستان میں نہیں بنایا جائے گا جو شریعت اسلامی سے متصادم ہو ۔ شریعت میں حکمران قابل مواخذہ اور جوابدہ ہے ۔ کہاں گیا آئین اور کہاں ہے اسلامی نظریاتی کونسل اور کہاں ہیں آئین کے پاسبان ۔ حقیقت یہی ہے کہ یہ سارا کھیل چیف جسٹس کی تعیناتی میں سیاسی مداخلت کیلئے کھیلا گیا ۔ حالانکہ یہ سپریم کورٹ کے ججز جو عرصہ سے انصاف کی کرسی پر بیٹھے ہیں کی توہین ہے کہ سینئر ترین جج کو اسی عدالت کی سربراہی کیلئے اہل نہ قرار دیا جائے ۔ قومی صوبائی اسمبلی کے ممبران کو کسی بھی قانون سازی میں آزاد کردار ادا کرنا بہت اہم ہے لیکن جب کسی سیاسی جماعت کے منتخب ارکان ضمیر کے فیصلہ پر ووٹ کریں تو اور بات ہے لیکن کروڑوں روپے لیکر ووٹ کریں تو یہ غلط ہے ۔ یہاں پر ایک نکتہ کی وضاحت بھی اگر احباب اختیار کر دیں تو مناسب ہو گا کہ وہ دوسری پارٹی کے ارکان کو ڈرا دھمکا کر تو ساتھ ملا لیں سمجھ آتا ہے لیکن وہ ترمیم کے حق میں انہیں روپے دیکر خریدیں سمجھ نہیں آتا ۔ اس ترمیم سے انہیں یقینا فائدہ ہے تب ہی وہ اس کو منظور کرنے کیلئے خرچ کر رہے ہیں ۔ یہ آئین سازی ہے یا کاروبار ہے ۔ جمہوریت اب کاروبار ہے اور یہاں بڑے بڑے برانڈز کے چمکتے شو روم ہیں ۔ جہاں جمہوریت بکتی اور جمہور کی نمائندگی کے نام پر کاروبار ہوتا ہے۔اب سندھی سیاستدانوں کے کیس سندھ بلوچوں اپنے زیر اثر کورٹس اور باقی کے بھی یونہی ہونگے ۔ ظاہر میں تو اس ترمیم کا عوامی فلاح سے کوئی واسطہ نہیں لگ رہا یہ ایک طبقہ کے مفادات کو تحفظ دینے کا ذریعہ ہو گی ۔ جیسے اسمبلی ممبران کو قانونی چھتری سے استحقاق اور مراعات کا تحفظ دیا جاتا ہے ویسے ہی یہ ترمیم بھی مفادات کے تحفظ کا سنگ میل ہی ہو گی ۔