کالم

26 ویں آئینی ترامیم کی منظوری خوش آئند

کسی بھی معاشرے کی بقا اور استحکام قانون کی حکمرانی اور بالادستی پر منحصر ہے قانون کی اہمیت و افادیت سے کوئی باشعور شخص انکار نہیں کرسکتا قوانین معاشرے اور ریاست کے درمیان تعلق کو مستحکم اور پائیدار بناتے ہیں بلکہ لاقانونیت کی وجہ سے معاشرہ برباد ہوجاتا ہے انسان کی اصلاح اور معاشرے کی بقا قانون کے عملی نفاذ کے بغیر ناممکن ہے کیونکہ قانون کی حکمرانی کسی معاشرے کی بقا کی اکائی ہے انسانی تہذیب و تمدن میں قانون کو بنیادی اہمیت حاصل ہے انسان نے حالات و واقعات سے عہدہ برآہ ہونے کے لیے عقل و شعور کی مدد سے نئے نئے قوانین بنائے جن کا بنیادی مقصد حیوانی جبلت پر کنٹرول تھا نیز قانون کی بالادستی اور عدل و انصاف کی فراہمی ہی معاشرے کی ضامن ہے پاکستان میں اس وقت نچلی سطح پر انصاف کی فراہمی کا نظام تضادات کا شکار ہے موجودہ صورتحال انصاف میں تاخیر کرپشن جانبداری غیر پیشہ روانہ رویوں اور انصاف کی راہ میں رکاوٹوں کی وجہ سے سول اور کرمنل دونوں شعبوں میں اصلاحات کی متقاضی ہے پاکستان کی فوجداری نظام کے بنیادی ڈھانچے میں دائمی خرابیاں سرایت کر چکی ہیں اور مرض دائمی ہے معیاری ٹرائل ایک خواب بن گیا ہے اور اسں خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے قومی سوچ اور قومی اقدامات درکار ہیں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے 26 آئینی ترمیم کی دو تہائی اکثریت سے منظوری خوش آئند ہے جمہوریت کا حسن اسی میں ہے کہ نکتہ نظر اور رائے میں اختلاف ہوسکتا ہے مگر قومی مفاد کی قیمت پر نہیں سیاسی جماعتیں اگر خلوص نیت کے ساتھ کوششیں کریں تو مل بیٹھنے اور مسائل کو حل کرنے کی گنجائش نکل ہی آتی ہے 26 آئینی ترمیم کی منظوری اس کی بڑی مثال ہے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایک مہینہ اس کام کے لئے جس تندہی سے جدوجہد کی وہ قابل تحسین ہے انہوں نے اس آئینی ترمیم کو میثاق جمہوریت کے نامکمل ایجنڈے کے طور پر لیا اور اس کی تکمیل کے لئے دن رات ایک کردیئے جوں جوں وقت گزرتا گیا ان کی رابطہ کاری اور دوں میں تیزی آتی چلی گئی اور یوں مہینہ بھر سے جاری ان کی کوششیں سرخرو ہوئیں اور آئینی ترمیم کے اعصاب شکن مرحلے کو اپنی حکمت عملی کے ذریعے کامیابی سے سرکرلیا مذکورہ ترمیم بارے حکومت نے اہم جماعتوں سے مشاورتی عمل شروع کر رکھا تھا لیکن آخری وقت میں اپوزیشن کی بڑی جماعت نے تحریک انصاف نے نہ صرف ترمیمی بل کا حصہ بننے سے انکار بلکہ اسے عدلیہ کی ساکھ اور اہمیت پر اثر انداز ہونے کی منظم کوشش قرار دیتے ہوئے مسترد بھی کردیا لیکن جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے مذکورہ ترمیم پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس حوالے سے مرکزی حیثیت بھی اختیار کی اور بعد ازاں آئینی بل کی مشروط حمایت کا اعلان کرکے اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا 26 ویں آئینی ترمیم پر صدرِ مملکت آصف علی زرداری کے دستخط کے بعد گزٹ نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے آئینی ترمیم پر دستخط کی تقریب میں پارلیمنٹرینز نے بھی شرکت کی آئینی ترمیم بل 2024 ایکٹ آف پارلیمنٹ بن گیا گزٹ نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد 26 ویں آئینی ترمیم فوری طور پر نافذ العمل ہو گئی ترمیم کے بعد سب سے پہلے خصوصی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جائے گا آرٹیکل 175 اے کی شق 3 کے تحت کمیٹی نئے چیف جسٹس کا تقرر عمل میں لائے گی چیف جسٹس پاکستان آرٹیکل 175 اے کی ذیلی شق 3 کے تحت 3سینئر ججز کے نام پارلیمانی کمیٹی کو بھجوائیں گے پارلیمانی کمیٹی 3 ججز میں سے ایک جج کا تقرر کرے گی۔خصوصی پارلیمانی کمیٹی چیف جسٹس پاکستان کا تقرر کر کے نام وزیرِ اعظم کو ارسال کرے گی وزیرِ اعظم چیف جسٹس کے تقرر کی ایڈوائس صدر کو بھجوائیں گے 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد چیف جسٹس کی تقرری 3 دن قبل ہو گی، چیف جسٹس کی تقرری کے لیے نام بھیجنے کے لیے 35 گھنٹوں کا وقت باقی ہے چیف جسٹس 22 اکتوبر رات 12 بجے تک 3 نام آئینی کمیٹی کو بھیجنے کے پابند ہیں چیف جسٹس سپریم کورٹ کے 3 سینئر ترین ججز میں سے ہوگا نامزد جج کے انکار کی صورت میں بقیہ 3 سینئر ججز میں سے کسی کو نامزد کیا جا سکے گا پارلیمانی کمیٹی کے 12 ارکان میں قومی اسمبلی کے 8 اور سینیٹ کے 4 ارکان ہوں گے، کمیٹی دوتہائی اکثریت سے چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے 14 روز قبل نامزدگی کرے گی ہائی کورٹس میں بھی آئینی بینچ ہو گا ہائی کورٹ کے جج کے لیے پاکستانی شہری اور کم از کم 40 سال کا ہونا لازمی ہے سپریم جوڈیشل کونسل میں چیف جسٹس پاکستان سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے دو سینئر جج ہوں گے کونسل میں اختلاف پر اکثریت کا فیصلہ حاوی ہو گا کونسل کی انکوائری کے بعد جج کی برطرفی کے لیے صدر کو رپورٹ دی جائے گی کمیشن میں وفاقی وزیر قانون اٹارنی جنرل، سپریم کورٹ کا 15 سال تجربے والا وکیل شامل ہو گا جوڈیشل کمیشن میں سینیٹ اور قومی اسمبلی سے حکومت اور اپوزیشن کے دو، دو ارکان ہوں گے کمیشن میں ایک خاتون یا غیرمسلم رکن بھی ہو گا جو سینیٹ میں بطور ٹیکنوکریٹ تقرر کا اہل ہو۔قومی و صوبائی اسمبلی سینیٹ بلدیاتی حکومتوں کے الیکشن کے لیے درکار رقم چارجڈ اخراجات میں ہو گی کمیشن یا کمیٹی کے فیصلے کے خلاف کوئی سوال نہیں کیا جا سکے گا، کمیشن ہائی کورٹ کے ججز کی کارکردگی کا سالانہ جائزہ لے گا ناقص کارکردگی پر جج کو بہتری کے لیے مہلت دی جائے گی سپریم کورٹ کے جج کے لیے 5 سال ہائی کورٹ کا جج ہونا یا 15 سال اعلی عدالتوں کا و کیل ہونا لازم ہو گا، سپریم کورٹ ازخود نوٹس میں کسی درخواست کے مندرجات سے باہر کوئی حکم یا ہدایت نہیں دے گی سپریم کورٹ کسی کیس یا اپیل کو دوسری ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ منتقل کر سکے گی آئینی ترمیم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ میں آئینی بینچ ہو گا جس میں سپریم کورٹ کے جج شامل ہوں گے آئینی بینچ میں تمام صوبوں سے برابر ججز ہوں گے، سینئر ترین جج آئینی بینچ کا پریزائیڈنگ جج ہو گا آئینی بینچ کے سوا کوئی بینچ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار، آئین کی تشریح کا معاملہ نہیں دیکھے گا آئینی بینچ میں کم از کم 5 ججز ہوں گے، متعلقہ تمام درخواستیں یا اپیلیں آئینی بینچ کو منتقل کی جائیں گی آئینی ترمیم منظوری حکومت اور سیاسی رہنماں کی دور اندیش کی ثبوت ہے حکومت کی جانب سے اس ترمیمی عمل کو جلد بازی میں نمٹایا جاتا تو یہ ترمیم آئین پاکستان میں ایک ناپسندیدہ مداخلت شمار ہوتی اور ہمیشہ کھٹکتی رہتی ہے بلا شبہ حکومت عدالتی اصلاحات بارے ایجنڈا میں کامیاب ہوگئی ہے مگر دیکھنا یہ ہوگا اس ترمیم سے واقعی جمہوری وسیاسی حوالے سے ملک آگے کی جانب چل پائے گا اور عوام کو حقیقی معنوں میں سستا اور فوری انصاف مل سکے گا اس کا جواب بہت جلد سامنے آجائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے