کالم

27اکتوبر،کشمیر بلیک ڈے اور تاریخ کا زخم

27اکتوبر کی صبح جب وادی کشمیر کے چنار سرخ ہوئے، وہ خزاں کی نوید نہیں تھی، بلکہ خون کی پہلی بوند کا استعارہ تھی۔ وہ دن جسے بھارت ایک فوجی اقدام کہتا ہے، کشمیری عوام اسے اپنی تاریخ کا سیاہ ترین دن گردانتے ہیں اور بجا طور پر 1947کی اس منحوس صبح بھارت نے سرینگر کی خاموش فضا میں جب اپنے فوجی اتارے، تو یہ نہ نجات دہندہ کی آمد تھی، نہ جمہوریت کی، بلکہ یہ تھا قبضے کا آغاز ایک ایسا قبضہ جو آج76 برس بعد بھی ہر کشمیری گھر میں ماتم بن کر گونج رہا ہے ۔ بھارت نے جس الحاق نامے کو اپنی فوج کشی کا جواز بنایا، وہ خود اپنی قانونی حیثیت کھو چکا ہے۔ معروف برطانوی مورخ السٹر لیمب لکھتے ہیں کہ یہ دستاویز درحقیقت ایک خالی کاغذ پر مہاراجہ ہری سنگھ کے دستخطوں کا کھیل تھا، جسے بعد میں بھارت نے اپنی مرضی کا رنگ دے دیا۔ نہ عوام کی رائے لی گئی، نہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عمل ہوا بس بوٹوں سے لکھی گئی جبری تاریخ کشمیریوں پر مسلط کر دی گئی۔برصغیر کی تقسیم کا زخم ابھی تازہ تھا کہ جموں مسلمانوں کے لیے قتل گاہ بنا دیا گیا۔ آر ایس ایس کے مسلح جتھے، ڈوگرہ افواج اور پٹیالہ کے سپاہیوں نے مسلمانوں پر قیامت توڑی۔ پانچ سو سے زائد دیہات جلائے گئے، عورتوں کی عصمت دری کی گئی، بچے ذبح ہوئے، اور مردوں کو اجتماعی طور پر موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ The Statesman نے اس قتلِ عام کو خون کی ندیاں قرار دیا۔ سیالکوٹ کی جانب دو لاکھ سے زائد مسلمانوں کی لاشیں روانہ ہوئیں یہ ہجرت نہیں، نسل کشی تھی۔ یہ سب کچھ اس لیے تھا کہ ریاست کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلا جا سکے اور بعد میں بھارت ایک ایسے جغرافیے پر قابض ہو جائے جو اسے تاریخی، ثقافتی اور مذہبی اعتبار سے کبھی تسلیم ہی نہیں کرتا تھا۔بھارت نے اقوامِ متحدہ کے سامنے وعدہ کیا تھا کہ کشمیری عوام کو حقِ خود ارادیت دیا جائے گا۔ اقوامِ متحدہ نے بھی 1948 اور 1949 میں رائے شماری کی قراردادیں منظور کیں۔ مگر یہ وعدے کبھی نبھائے نہ گئے۔ ہر سال 27 اکتوبر انہی وعدوں کی ٹوٹی ہوئی زنجیروں کی یاد دلاتا ہے۔ پنڈت نہرو نے خود 1952 میں کہا تھا کہ کشمیر کا الحاق عبوری ہے، اور کشمیری عوام کو خود فیصلہ کرنا ہوگا لیکن یہ الفاظ اب صرف ریفرنس نوٹ ہیں جنہیں تاریخ نے بھلا دیا اور بھارت نے دفن کر دیا۔2019 میں آ رٹیکل 370 اور 35A کا غیر آئینی خاتمہ دراصل استعمار کی تکمیل تھی جس کے بعد کشمیر کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا، مقامی قیادت کو قید کر دیا گیا، صحافت کا گلا گھونٹا گیا، اور انٹرنیٹ بند کر کے پوری وادی کو ڈیجیٹل سائے میں ڈوبا دیا گیا۔کشمیر کا سیاسی منظرنامہ مکمل طور پر بدل دیا گیا۔ اب بات صرف فوجی قبضے کی نہیں، سیاسی و ثقافتی صفائے کی ہے۔ ہندو قوم پرستانہ سوچ کے تحت کشمیری مسلمانوں کی شناخت، زبان، زمین اور وقار پر یلغار کی جا رہی ہے۔اگست 2025 میں بھارت نے ایک اور آئینی ہتھیار چلا دیا۔ اب لیفٹیننٹ گورنر کو اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی منتخب وزیر یا وزیرِ اعلی کو صرف الزام یا 30 دن کی قید کی بنیاد پر عہدے سے ہٹا سکتا ہے۔ یہ قانون نہیں، سیاسی غلامی کی دستاویز ہے۔کیا یہ جمہوریت ہے؟ یا وہ نوآبادیاتی شکنجہ جو مقامی نمائندوں کے چہروں پر جمہوریت کا خول چڑھا کر ان کے اختیار کو چھینتا ہے؟ہزاروں نوجوان اب تک "جعلی انکانٹرز” کا نشانہ بن چکے ہیں۔ 11 سال کے بچوں تک کو پیلٹ گنز سے نشانہ بنایا گیا، جن کی آنکھوں سے روشنی چھین لی گئی۔ خواتین کے ساتھ زیادتی، اجتماعی قبریں، اور ہزاروں کی تعداد میں جبری گمشدگیاں یہ سب کچھ AFSPAاور PSA جیسے قوانین کی آڑ میں ہو رہا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پبلک سیفٹی ایکٹ کو بے قانون قانون قرار دیا ہے۔ عدالتیں خاموش، انصاف معطل، اور قانون ریاستی تشدد کا ہتھیار بن چکا ہے۔جمہوریت ایک تماشا، انتخابات دکھاوا بن چکے ہیں کشمیری عوام نے کئی بار یہ ثابت کیا ہے کہ کوئی بھی الیکشن رائے شماری کا نعم البدل نہیں۔ بھارت نے کشمیر کو سب سے زیادہ عسکری قبضے والا علاقہ بنا دیا ہے، جہاں ہر احتجاج جرم، اور ہر اختلاف غداری سمجھا جاتا ہے۔2019 کے بعد جاری تبدیلیاں بتا رہی ہیں کہ اصل مقصد جمہوریت کا فروغ نہیں بلکہ اکثریت کی مرضی مسلط کرنا ہے۔27 اکتوبر محض تاریخ نہیں، ایک چیختی ہوئی گواہی ہے۔ یہ وہ دن ہے جب کشمیریوں کی قسمت کا فیصلہ ان کے بغیر کیا گیا، جب قابض فوج نے آزادی کے نغمے کو بوٹوں تلے روند دیا۔یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کشمیر کے بچے ابھی بھی فوجی ناکوں پر کھڑے ہیں، ماں کے ہاتھوں میں گمشدہ بیٹوں کی تصاویر ہیں، اور صحافیوں کی تحریریں ضبط ہو رہی ہیں۔آزادی کا وعدہ تشنہ، مگر مزاحمت زندہ ہے۔یہ سچ ہے کہ کشمیریوں کو انصاف نہیں ملا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا خاموش ہو چکی ہے۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ روحوں کو قید نہیں کیا جا سکتا۔ آزادی کا خواب، وقار کی لڑائی، شناخت کا حق یہ وہ جذبے ہیں جو بوٹوں کی چاپ، کرفیو کی خامشی اور بندوق کی گولی سے دبائے نہیں جا سکتے۔کشمیر کی جدوجہد زمین کی نہیں، وجود کی ہے۔ اور یہ مزاحمت بتا رہی ہے کہ 27اکتوبر صرف ماضی کا زخم نہیں، آنے والے کل کی علامت بھی ہے۔جب تک کشمیری عوام کو ان کے مستقبل کے تعین کا حق نہیں دیا جاتا، ہر 27اکتوبر ان وعدوں کی قبر پر کھڑا ہوگا جو پورے نہ ہوئے۔ یہ دن صرف سیاہ پرچموں کا نہیں، ضمیر کی عدالت کا دن ہے۔اور شاید وہ دن زیادہ دور نہیں، جب خزاں رسیدہ چنار پھر سے سرسبز ہوں گے، جب کشمیر صرف خوبصورتی کا استعارہ نہیں بلکہ آزادی کا علمبردار ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے