کالم

27اکتوبر۔۔۔۔یوم سیاہ

بھارت نے 27اکتوبر 1947 کوعالمی قوانین کو روندتے ہوئے جموں کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر لیا اور پانچ اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کا خاتمہ کر کے کشمیریوں کی نیم خود مختاری میں بھی آخری کیل ٹھونک دیا جموں کشمیر کے دونوں اطراف اور دنیا بھر میں کشمیری بھارتی اقدامات کیخلاف ہر سال 27 اکتوبر کو یوم سیاہ منا تے ہیں ان کا یہ یوم سیاہ ایک دن کا نہیں وہ 77 سال سے ہی تاریکی میں رہ رہے ہیں جب کسی کے حقوق اور شناخت چھین لی جائے تو اس کا ہر دن تاریکی میں بدل جاتا ہے۔ کشمیری بھارت کے ناجائز تسلط کے خلاف روز اول سے سراپا احتجاج ہیں یہ دن ہفتے مہینوں اور سالوں میں بدلتے گئے اب تو ایک صدی ہونے کو ہے اس ظلم و ستم اور تاریک رات کو لیکن کشمیری اپنے حق کے حصول تک جدوجہد جاری رکھنے کا عزم رکھتے ہیں وہ تین نسلیں قربان کر چکے ہیں اور اپنی اگلی نسل کی قربانی دینے کےلئے بھی تیار ہیں۔وہ ڈٹے ہوئے ہیں اپنی دھرتی ماں کی آزادی کےلئے۔مسئلہ کشمیر دنیا کے تمام عالمی اداروں اور طاقتوں کے علم میں ہے لیکن یوم سیاہ منا کر ہم دنیا کی توجہ کشمیریوں پر ہونےوالے مظالم اور انسانی حقوق کی پامالیوں کی طرف دلانا ہے اس دن کے منانے کا مقصد دنیا کو مسئلہ کشمیر کی تاریخ اور کشمیریوں کے مسائل سے بھی اگاہ بھی کرنا ہے۔یوم سیاہ احتجاج کا ایک پر امن طریقہ بھی ہے تاکہ غاصب کو ظلم و زیادتی اور غلطی کا احساس دلایا جا سکے آج کے دن پاکستان، آزاد کشمیر سمیت دنیا بھر میں کشمیری احتجاجی مظاہرے کانفرنسز سیمینارز کاانعقاد کرتے ہیں سیاہ پرچم لہر اور بازوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر احتجاج کیا جاتا ہے۔کوئی بھی مسئلہ متنازعہ اسوقت ہوتا ہے جب کسی ایک فریق کے حقوق غضب اور اس سے جینے کا حق چھین لیا جائے یہاں تو مسئلہ آزادی کا ہے دنیا میں تنازعات ہوتے رہتے ہیں لیکن ان کا پر امن حل بھی ہوتا ہے مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان چار جنگیں ہو چکی ہیں لیکن مسئلہ کشمیر حل نہ ہوا۔ جنگ کسی مسئلہ کا حل نہیںاب بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی فضا ہے تنازعہ کشمیر کے حل تک جنوبی ایشیا میں پائیدار امن ممکن نہیں بھارت مسئلے کے حل کےلئے جیو اور جینے دو کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت دے ۔بھارت نے مقبوضہ وادی کو گھپ اندھیروں میں دھکیل دیا ہے ایک کروڑ 30 لاکھ کشمیریوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کےلئے ڈیمو گرافی بدل رہا ہے پچھلے پانچ سال سے لاکھوں ہندوں کو مقبوضہ کشمیر میں آباد کیا جا رہا ہے جو صریحا اقوام متحدہ کی قراردادوں کیخلاف وردی ہے بھارت نے یکطرفہ طور پر مقبوضہ وادی کو بھارت کا حصہ بنایا کشمیر متنازعہ ہے اور اس کا اعتراف جو ہر لعل نہرو خود کر چکے ہیں کہ وادی کے مستقل کا فیصلہ کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق استصواب رائے سے کیا جائے گا۔ کشمیر میں ظلم اور امن ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے بقول شاعر ،، ظلم رہے اور امن بھی ہو کیا ممکن ہے تم ہی کہو ،، مقبوضہ وادی میں میں اس وقت جنگ زدہ ماحول ہے گرفتاریاں، تشدد، ظلم و جبر، قتل وغارت اور بربریت کے ساتھ امن کسی بھی صورت ممکن نہیں مقبوضہ وادی میں غیر یقینی خوف اور دہشت کا راج ہے کشمیریوں پر زندگی تنگ ہو چکی ہے۔ اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں نے مجرمانہ چپ سادھ رکھی ہے دنیا کو کشمیر میں ہونےوالی قتال، بربریت اور کیوں نظر نہیں آتی ایک طرف تو انسانی حقوق کا راگ الاپا جا رہا ہےاور دوسری طرف انسانی حقوق کی پامالی پر سب کے ہونٹ سلے ہوئے ہیں افسوس اقوام متحدہ اپنی ان قراردادوں پر عمل نہیں کرا سکی جو اس کی اتنی منظور کردہ ہیں ایسے عالمی اداروں کو اپنا چارٹرڈ بدلنا چاہیے قراردادوں پر عمل نہ ہونا اقوام متحدہ کی ساکھ پر بھی سوال ہے دوسری طرف عالم اسلام نے بھی تنازع کشمیر پر خاموشی سادھ رکھی ہے۔پاکستانی عوام اور حکومت شروع دن سے ہی کشمیریوں کی سفارتی اخلاقی سطح پر حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان اس مسئلے پر عالمی اداروں اور دوست ممالک کو مسلسل ،، صدائیں ،، دیتا ہے تاہم آزاد کشمیر حکومت کو بھی آگے آنا ہوگا اور مقبوضہ وادی میں نئی آباد کاری کو روکنے کےلئے اقوام متحدہ میں بھرپور احتجاج کرنا ہوگا پاکستان اگر چہ مسئلہ کشمیر میں فریق ہے مگر کشمیر کو آزاد کرانے کی ذمہ داری کشمیریوں کی ہے۔پانچ اگست 2019کی بھارتی قانون سازی کشمیریوں کو حق خوداریت سے محروم کرنے کی ایک سازش تھی کشمیری کب تک یوم سیاہ مناتے رہیں گے اب آزادی کشمیر کی جدوجہد کو مزید تیز کرنا ہوگا وہ دن دور نہیں جب ظلم کی طویل تاریک رات ختم ہوگی اندھیرے چھٹ جائیں گے اور آزادی کا سورج آب و تاب سے طلوع ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے