کالم

4اپرےل قومی تارےخ کا اےک سےاہ دن

انسانی تارےخ مےں بہت کم کردار ہےں جنہوں نے موت کو خود پر فتح مند نہ ہونے دےا بلکہ موت کو شکست فاش دے کر امر ہو گئے ۔سچ کی خاطر جان دےنے والے اور حق کی بات پر ڈٹے رہنے والے کبھی نہےں مرتے کےونکہ وہ انسان کبھی نہےں مرتا جو کسی آورش کی خاطر جےا ہو ۔سقراط نے سچائی کی خاطر زہر کا جام پےا اور وہ امر ہو گےا ۔حضرت عےسیٰ نے حق کی خاطر صلےب کو قبول کےا اور وہ لازوال ہو گئے ۔منصور حلاج نے سنگسار ہونا قبول کےا اور جھوٹ کی خاطر زندگی قبول نہےں کی ۔حضرت امام حسےن ؑ نے اےک جابر ،فاسق حکمران کے آگے گردن نہ جھکائی اور کربلا مےں شہادت کو گلے لگاےا اور”دےن پناہ“ بن گئے ۔سچائی کا قافلہ اصولوں سے رواں دواں ہے سچ بولنے والے ہر صدی مےں سچ بولنے کی پاداش مےں تختہ دار پر کھےنچے جاتے رہے لےکن سچائی کی ہمےشہ جےت رہی انسان کی سب سے قےمتی شے جو اسے ملتی ہے وہ اس کی زندگی ہے اور اس کا بنےادی تقاضا ےہ ہے کہ اس کو اس طرح جےا جائے کہ اس مےں خوف و بزدلی کی ندامت موجود نہ ہو ۔پس انسان زندہ رہے تو اےسے کہ بوقت نزاع وہ فخر سے کہہ سکے کہ مےری تمام زندگی اور مےری تمام صلاحےتےں کائنات کے عظےم ترےن مقصد کےلئے صرف ہوئی ہےں ذوالفقار علی بھٹو اےسا کرشماتی اور لافانی کردار ہے جس نے جابرانہ طاقتوں کے خلاف انتہائی دلےری سے مقابلہ کےا تا کہ سچائی ،انصاف اور مساوات کا عکاس اےک خوبصور ت معاشرہ قائم ہو سکے ۔بھٹو ذوالفقار علی بن کر آےا تاکہ محروم عوام کے پےروں مےں پڑی ہوئی استحصال کی زنجےرےں توڑ دے ۔انتہائی اےذا رسانی اور موت کی کال کوٹھڑی مےں قےد و بند کی صعوبتوں کے باوجود بھٹو نے اپنی ناقابل شکست قوت ارادی اور ناقابل تسخےر جذبے سے دشمن کے ناپاک عزائم کو پامال کر دےا بھٹو کی ذات کروڑوں بد نصےب انسانوں کےلئے جو اس سر زمےن کی اتھاہ تارےکےوں مےں زندگی گزار رہے تھے اےک خداداد نعمت تھی جےسے آکاش کا روشن ترےن ستارہ آسمان کو منور کرتا ہے ۔بھٹو کی مسابقت کسی بھی سےاسی رہنما سے ناممکن ہے ۔بھٹو کے کردار کو سمجھنے کےلئے ہمےں تارےخ کے اعلیٰ اور روشن کرداروں سے رہنمائی لےنا ہو گی جنہوں نے مصائب و آلام کا مقابلہ جرا¿ت و بہادری سے کےا ۔قدےم انسانی تارےخ مےں سقراط کا کردار ہو ےا مکتب عشق کا منصور ہو انہی ہستےوں کا کردار ہمےں بھٹو کو سمجھنے مےں معاون ہو سکتا ہے ۔اےتھنز مےں جب علم و فلسفہ اور سےاست بڑے بڑے خاندانوں تک محدود تھی تو اسی وقت شہر کی گلےوں ،بازاروں ،چوراہوں اور مےدانوں مےں سقراط دبےز اور اہم سوالوں کا جواب انتہائی سادہ لفظوں مےں عام لوگوں کی محفلوں مےں دےتا اور لوگوں مےں عقل و شعور اور ادراک کے چراغ روشن کرتا جس کی وجہ سے عوام اور نوجوان سقراط کے دےوانے ہو گئے ۔پاکستان مےں اقتدار کے اےوانوں اور سےاست کے مےدانوں مےں عوام کا کوئی پرسان حال نہ تھا بھٹو نے عام آدمی کو سوچ اور اظہار کو وہ گر سکھاےا کہ سےاست عوام کی خواہشات کے تابع ہو گئی ۔بھٹو نے مخصوص ناموں اور نعروں کے ذرےعہ مذہبی تعصبات بھڑکانے والی جماعتوں کو چےلنج کرتے ہوئے عوام کی خواہشات کے مطابق سےاست کا آغاز کےا تو مذہب کے ٹھےکےدار بھٹو کے ازلی دشمن بن گئے ۔مساوت، آزادی اور محروم طبقات کے حقوق کی جنگ مےں عوام بھٹو کے سنگ تھے ۔بھٹو کہتے تھے ”پاکستان کے عوام مجھے اپنی امنگوں کے ساتھ ےاد رکھےں گے کہ مےں نے انہےں جواں سال قےادت فراہم کی پاکستان کی خواتےن ہمےشہ مجھے خلوص دل سے ےاد رکھےں گی کہ مےں نے انہےں آزادی دےنے کی کوشش کی ،کسان مجھے جوش و جذبے سے ےاد رکھےں گے کہ مےں نے جاگےرداری کی زنجےرےں توڑ دےں ،محنت کش مجھے ےاد رکھےں گے کہ مےں نے انہےں قومےائی گئی صنعتوں کا مالک بناےا ،دانشور مےری قدر کرےں گے کہ مےں نے خود کو ٹےکنالوجی اور جدےدےت سے مخلصانہ طور پر وابستہ رکھا، اقلےتےں ہمےشہ مجھے ےاد رکھےں گی کہ مےں نے ان کے ساتھ سچا سلوک کےا ،وہ بے نام لوگ مجھے ےاد رکھےں گے کہ مےں نے انہےں زمےن اور گھر دے کر پہچان دی ۔اب کٹہرا بھٹو کے انتظار مےں تھا وہی ےکتا کٹہرا جس سے ہوتے ہوئے سقراط،منصور اور دوسرے باغی سولی تک پہنچے کےونکہ ازل سے خالق ےکتا کی مخلوق کو ےکتائی کی لڑی مےں پرونے والوں کا ےہی مقدر ٹھہرا ہے اور آخر کار وہی وقت بھی آ پہنچا کہ پاکستان کا پہلا منتخب وزےر اعظم و صدر ،پاکستان کے متفقہ آئےن کا خالق ،پہلی اسلامی رےاست کے اےٹمی پروگرام کا بانی ذوالفقار علی بھٹو بھی کٹہرے مےں کھڑا تھا ”مےں پھانسی کی پر تعفن اور تنگ و تارےک کوٹھڑی کی چار دےواری کے اندر قےد ہوں اور دماغ مےں اپنی تمام تر پچھلی زندگی کے واقعات اےک اےک کر کے ابھر رہے ہےں جن سے ہماری قوم گزری ۔مجھے ےہ بھی ےاد ہے کہ 5جنوری 1948کو مےرے اکےسوےں ےوم پےدائش پر لاس اےنجلس (امرےکہ)مےں لاڑکانہ سے مجھے مےرے والد نے دو تحائف بھےجے تھے اےک پانچ جلدوں پر مشتمل نپولےن بونا پارٹ کی کتاب اور دوسرا اےک کتابچہ جس کے آخری فقرے تھے” دنےا بھر کے مزدورو اےک ہو جاﺅ ۔تمہےں اپنی زنجےروں کے سوا کھونا ہی کےا ہے اور جےنے کےلئے تمہارے سامنے اےک دنےا پڑی ہے“۔مےں کارل مارکس کے اس انقلابی فقرے پر اپنی بات ختم نہےں کرنا چاہتا بلکہ جواہر لال نہرو کی جےل مےں لکھی گئی کتاب ” ہندوستان کی درےافت“مےں روسی مصنف ارٹرو فسکی کے حوالے سے انسان کی سب سے عزےز ترےن اور بےش قےمت دولت اس کی زندگی ہے ۔انسان کی زندگی اےسی ہونی چاہےے کہ اسے ماضی کی بزدلی اور سطحی زندگی پر تا حےات شرم محسوس ہوتی رہے اور وہ زندگی بھر اےک بلا مقصد کی اذےت مےں مبتلا رہے تا کہ بوقت مرگ وہ ےہ کہہ سکے کہ مےری تمام تر زندگی اور تمام تر قوت دنےا کے اولےن فرض کی تکمےل مےں صرف ہوئی اور وہ عظےم فرض ہے ”انسان کی نجات“ ۔لارڈ شپس! مےری روح مےرا عزم اور مےری قوت ارادی ہے اور ےہ کہ مےں اےک رہنما ہوں ۔اس بناءپر مےں اذےت بھری ابتلا کا سامنا کرنے کے قابل ہوں ۔اس حقےقت کو بھلا دےجئےے کہ مےں پاکستان کا صدر اور وزےر اعظم رہا ہوں ۔اس بات کو بھی جانے دےجئےے کہ مےں ملک کی سب سے بڑی پارٹی کا سربراہ ہوں ۔ان تمام حقائق کو فراموش کر دےجئےے لےکن مےں اس ملک کا شہری ہوں اور اےک ادنیٰ شہری کو بھی اور مےں خود کو اےسا ہی سمجھتا ہوں کہ انصاف سے محروم نہےں کےا جا سکتا ۔مجھ پر الزام لگاےا گےا کہ مےں برائے نام مسلمان ہوں ۔اےک اسلامی ملک مےں اےک کلمہ گو کے عجز کےلئے ےہ اےک غےر معمولی واقعہ ہو گا کہ وہ ےہ بات ثابت کرے کہ وہ مسلمان ہے“۔ےہ الفاظ اس شخص کے ہےں جس نے پاکستان کو اےٹمی پاور بناےا ،جس نے امت مسلمہ کو اےک پلےٹ فارم پر جمع کرنے کی کوشش مےں امرےکہ کی دشمنی مول لی اگر وہ چاہتا تو اپنی کمر بچانے کےلئے ملک کا ہی سودا کر سکتا تھا لےکن اس نے اےسا نہےں کےا بلکہ امرےکی اےجنٹوں کے ہاتھوں مر کر خود کو امر کر لےا ۔ےہ بھٹو شہےد کو بھی علم تھا کہ ان کی حکومت کا تختہ رات کی تارےکی مےں کس کی اےما پر الٹا گےا اور کس ملک نے ےہ نہ صرف فوج سے کام کراےا بلکہ ان کے خلاف تحرےک چلانے کےلئے ڈالر بھی دےے ۔4اپرےل ہی قومی تارےخ کا وہ سےاہ دن ہے جس دن پاکستان کے اس عظےم سپوت ذوالفقار علی بھٹو کو مشکوک اور پر اسرا ر انداز مےں پھانسی کے تختے پر چڑھاےا گےا ۔اےک فوجی حکمران کے جابرانہ نظام کے تحت ےہ عدالتی قتل کےسے کےا گےا ؟اس کی تفصےلات خود جج اور جنرل صاحبان کر چکے ہےں ۔جسٹس نسےم حسن شاہ کا اعتراف سامنے آ چکا ہے اور جنرل کے اےم عارف جو 10سال تک جنرل ضےاءالحق کے دست راست رہے انہوں نے بھی لکھا ہے کہ سپرےم کورٹ نے بھٹو کے خلاف مقدمہ قتل کا فےصلہ شرےف الدےن پےرزادہ کے ذرےعے جنرل ضےاءالحق کو روانہ کےا اور اس کی منظوری کے بعد فےصلہ سناےا“۔بالآخر تارےخ نے اپنا فےصلہ سنا دےا ۔پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہےد کے خلاف جھوٹے مقدمہ قتل مےں متفقہ رائے دے دی کہ جناب بھٹو کے خلاف انصاف نہےں ہوا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے