کالم

50لاکھ گھروں کا جھانسہ اور کرپشن

میں جب عمران خان نے حکومت سنبھالی تو لوگوں کو امید تھی کہ موصوف اپنے پارسائی کے دعووں کا کچھ تو بھرم رکھیں گے مگروقت گززنے کے ساتھ ان سبھی دعووں کی قلعی کھلتی چلی گئی اور ہر ایک پر واضح ہو گیا کہ ”خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا”جو سنا افسانہ تھا “کے مترادف عمران خان لوگوں کی کسی بھی امید پر پورا نہےں اترے۔مبصرین کے مطابق جس کر پشن کے خاتمے کا دعوا کرکے وہ حکومت میں آئے انہوں نے اس کر پشن کو مزید پروان چڑھایا ۔واضح رہے کہ فرح گوگی کی کر پشن ہو یا اپنے من پسند افراد کی بڑے عہدوں پر تعیناتی یا پھر 50لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ ہو، موصوف نے ہر معاملے میں جھوٹ کا سہارا لیا اور لوگوں کو مایوس۔ یہ امر توجہ کا حامل ہے کہ سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نیب میں پیش ہو کر اپنا اعترافی بیان تفصیل سے جمع کرا چکے ہےں اور اس حوالے سے انہوں نے جو انکشافات کےے تھے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہےں ۔مبصرین کے مطابق کسے معلوم نہےں کہ القادر ٹرسٹ کیس اس ساڑھے چار سو کنال سے زیادہ زمین کے عطیے سے متعلق ہے جو بحریہ ٹا¶ن کی جانب سے القادر یونیورسٹی کے لیے دی گئی تھی۔ اتحادی حکومت نے تب یہ الزام عائد کیا تھا کہ یہ معاملہ عطیے کا نہیں بلکہ بحریہ ٹاون کے مالک ملک ریاض اور عمران خان کی حکومت کے درمیان طے پانے والے ایک خفیہ معاہدے کا نتیجہ ہے اور حکومت کا دعویٰ تھا کہ ‘بحریہ ٹاون کی جو 190ملین پا¶نڈ یا 60 ارب روپے کی رقم برطانیہ میں منجمد ہونے کے بعد پاکستانی حکومت کے حوالے کی گئی وہ بحریہ ٹا¶ن کراچی کے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملک ریاض کے ذمے واجب الادا 460 ارب روپے کی رقم میں ایڈجسٹ کی گئی۔حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کے عوض بحریہ ٹا¶ن نے مارچ 2021 میں القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کو ضلع جہلم کے علاقے سوہاوہ میں 458 کنال اراضی عطیہ کی اور یہ معاہدہ بحریہ ٹاون اور عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے درمیان ہوا تھا۔جس ٹرسٹ کو یہ زمین دی گئی تھی اس کے ٹرسٹیز میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے علاوہ تحریکِ انصاف کے رہنما زلفی بخاری اور بابر اعوان شامل تھے تاہم بعدازاں یہ دونوں رہنما اس ٹرسٹ سے علیحدہ ہو گئے تھے ۔ جون 2022 میں اتحادی حکومت نے یہ بھی کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے بحریہ ٹاون کے ساتھ معاہدے کے بدلے اربوں روپے کی اراضی سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے نام منتقل کی۔اس وقت وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد اس خفیہ معاہدے سے متعلق کچھ تفصیلات بھی منظرعام پر لائی گئی تھیں۔ ان دستاویزات پر سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے بطور ٹرسٹی القادر یونیورسٹی پراجیکٹ ٹرسٹ کی جانب سے دستخط موجود تھے۔قومی احتساب بیورو نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کے نام پر سینکڑوں کنال اراضی سے متعلق انکوائری کو باقاعدہ تحقیقات میں تبدیل کیا اور.نیب کے حکام اس سے قبل اختیارات کے مبینہ غلط استعمال اور برطانیہ سے موصول ہونے والے جرائم کی رقم کی وصولی کے عمل کی انکوائری کر رہا تھا۔اس معاملے کی تحقیقات کرنے والے ایک افسر کے مطاابق ان کے پاس ناقابل تردید شواہد سامنے آئے تھے، جس کی بنیاد پر اس معاملے میں کی جانے والی انکوائری کو انویسٹی گیشن میں تبدیل کردیا گیا ۔ ذرائع کے مطابق جب معاملہ انویسٹی گیشن کے مرحلے میں آجاتا ہے تو پھر ملزمان سے براہ راست تفتیش کی جاتی ہے اور ضرورت پڑنے پر انھیں پوچھ گچھ کے لیے گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے۔نیب حکام کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں عمران خان، بشریٰ بی بی بیرسٹر شہزاد اکبر اور ملک ریاض کے خلاف انکوائری کو انویسٹی گیشن میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔عمران خان کے وکیل بیرسٹر گوہر کے مطابق جب ان کو معلوم ہوا کہ القادر ٹرسٹ میں کی جانے والی انکوائری کو انوسٹی گیشن میں تبدیل کردیا گیا ہے تو انھوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دی، جس میں استدعا کی گئی کہ نیب کو گرفتاری سے روکا جائے۔نیب حکام کے مطابق نیب نے انکوائری شروع کی تو عمران خان کی حکومت کے تقریباً تمام کابینہ ارکان کو طلب کیا تھا جنھوں نے 3 دسمبر 2019 کے اجلاس میں شرکت کی تھی تاہم نیب حکام کے مطابق پی ٹی آئی کے کچھ رہنما نیب کے سامنے پیش ہوئے تھے۔ اسی سلسلے میں اسلام آباد کے سب رجسٹرار آفس میں ٹرسٹ ڈیڈ کی رجسٹریشن کے چند ماہ کے اندر جہلم میں 460 کنال اراضی خرید کر عمران خان کے قریبی دوست زلفی بخاری کے نام منتقل کر دی گئی اور ٹرسٹ کی تخلیق کے بعد یہ زمین زلفی بخاری نے ٹرسٹ کے نام منتقل کردی۔ یاد رہے کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ القادر ٹرسٹ کے ٹرسٹی ہیں۔مبصرین کے مطابق خاص اس وقت جب عمران خان سیاسی مخالفین پر کرپشن کے جھوٹے مقدمات تیار کروا رہے تھے اس وقت پر ہی وہ یہ سب بدعنوانی بھی کر رہے تھے۔ جس پراپرٹی ٹائیکون نے القادر ٹرسٹ کے لیے زمین دی تو ان کے ہی اکا¶نٹ میں 60 ارب بھیج کر قومی خزانے کو یہ ٹیکا لگایا۔نیب ذرائع کے مطابق بنی گالہ میں 240 کنال زمین فرح گوگی کے نام پر رجسٹرڈ ہے، جس کی مالیت پانچ سے سات ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔ اس صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ توقع کی جانی چاہےے کہ اس سارے معاملے کے ذمہ دار مجرموں کو قانون و انصاف کے کٹہرے میں لایا جائےگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے