نومبر کی سرد ہوا جب وادیوں سے گزرتی ہے تو اپنے ساتھ 1947 کے لہو میں تر دامنوں کی مہک لاتی ہے۔ وہی مہینہ جس میں جموں کی زمین تین لاکھ سے زائد کشمیری مسلمانوں کے خون سے رنگین ہوئی۔ تاریخ کے اوراق آج بھی گواہی دیتے ہیں کہ مہاراجہ ہری سنگھ کی افواج، آر ایس ایس کے انتہا پسند جتھوں اور ڈوگرہ ریاست کے نیم فوجی دستوں نے سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت جموں کے مسلمانوں پر قیامت ڈھا دی۔ گاؤں کے گاؤں جلا دیے گئے، عورتوں کی عصمتیں پامال ہوئیں، قافلے کاٹے گئے، اور ہزاروں خاندان ہمیشہ کیلئے بچھڑ گئے۔ اس منظم نسل کشی کا مقصد جموں کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنا تھا تاکہ مستقبل میں ریاستِ جموں و کشمیر کے سیاسی فیصلے پر اثر انداز ہوا جا سکے ۔ 14اگست1947کو پاکستان کے قیام کے بعد جب مسلم کانفرنس نے الحاقِ پاکستان کی قرارداد منظور کی تو یہ فیصلہ مہاراجہ اور ہندو انتہا پسندوں کیلئے ناقابلِ برداشت بن گیا۔بدلے کی آگ نے انسانیت کو جلا کر راکھ کر دیا۔ مہاراجہ کی سرپرستی میں آر ایس ایس کے مسلح غنڈوں کو حکم دیا گیا کہ جو مسلمان نظر آئے، اسے ختم کر دو۔ہزاروں مسلمانوں کو یہ کہہ کر پولیس گراؤنڈ میں جمع کیا گیا کہ انہیں بحفاظت پاکستان پہنچایا جائے گا، مگر جب ہزاروں مہاجرین پر مشتمل یہ قافلہ سیالکوٹ کی سمت روانہ ہوا تو راستے میں مسلح جتھوں نے ان نہتے انسانوں پر ہولناک حملہ کردیا ۔ گولیاں، کلہاڑیاں، تلواریں ہر ہتھیار انسانیت کیخلاف استعمال ہوا۔بچے ماں کی گود میں، عورتیں اپنے دوپٹوں میں اور مرد ایمان کی گواہی دیتے ہوئے مٹی میں مل گئے۔ دریائے توی کے کنارے آج بھی وہ مٹی موجود ہے جس نے شہیدوں کے خون کو اپنے اندر جذب کیا۔یہی وہ دن تھا 6 نومبر 1947جو آج یومِ شہدائے جموں (6/11) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ہر سال یہ دن نہ صرف ماضی کے زخم تازہ کرتا ہے بلکہ ایک عہد بھی یاد دلاتا ہے کہ ظلم وقتی ہوتا ہے مگر قربانی دائمی۔ مگر سوال یہ ہے کہ دنیا نے اس سانحے کو کیوں فراموش کر دیا؟ کیوں 6نومبر 1947کا 6/11 عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ نہ سکا، جبکہ11ستمبر2001کے 9/11 نے پوری دنیا کا نقشہ بدل ڈالا؟دونوں میں بے گناہ انسانوں کا خون بہا۔ دونوں کے متاثرین نے ناقابلِ تصور دکھ سہے۔ مگر فرق صرف اتنا ہے کہ 9/11کے بعد دنیا نے انصاف، ہمدردی اور امن کے نام پر ایک عالمی مہم شروع کی اور اس سانحہ کو عالمی سیاست کا محور بنا دیا جبکہ دوسرا تاریخ کے حاشیے پر دھکیل دیا 6/11 کے لاکھوں شہدا کو انصاف نہ ملا، ان کے حق میں کوئی عالمی قرارداد نہ آئی، اور نہ کسی بڑے میڈیا نیٹ ورک نے اس المیے کو اپنی سرخی بنایا۔ شاید اسلئے کہ 6/11 کے مظلوم ایسے خطے سے تعلق رکھتے تھے جہاں انصاف کی جگہ سیاست نے لے لی تھی ۔9/11نے عالمی ضمیر کو بیدار کیا، جبکہ6/11کو اسی ضمیر نے دفن کر دیا۔ 75برس سے زیادہ گزر چکے ہیں مگر حالات بہتر ہونے کے بجائے پہلے سے زیادہ سنگین ہو چکے ہیں۔2019 میں بھارت نے آرٹیکل 370کو منسوخ کر کے وہی پالیسی دوبارہ زندہ کر دی جو1947میں ہری سنگھ نے شروع کی تھی کشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی پالیسی۔ زمینوں کے قوانین تبدیل کیے گئے، غیر کشمیریوں کو جائیداد خریدنے کے حقوق دیے گئے، نوجوانوں کو سیاسی قیدی بنا کر جیلوں میں ڈال دیا گیا، اور دنیا کے سامنے یہ سب قومی یکجہتی کے نام پر پیش کیا گیا۔ دراصل یہ 1947 کی پالیسی کا جدید روپ تھا وہی سلسلہ جو جموں کے قتلِ عام سے شروع ہوا تھا۔کشمیر کی عورت آج بھی اس تاریخ کا سب سے المناک مگر باعزم کردار ہے۔پوشپرا، شوپیاں، کپواڑہ ہر جگہ بھارتی افواج نے عصمت دری کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا لیکن وہی عورت آج بھی اپنے شہید شوہروں اور بیٹوں کے لہو کو اپنی غیرت کا تاج بنا کر جدوجہد کی صفِ اول میں کھڑی ہے۔ اسی استقامت نے کشمیر کی تحریکِ آزادی کو زندہ رکھا ہے۔6 نومبر1947 کا سانحہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ تاریخ کی خاموشی سب سے بڑا ظلم ہے۔ جب 9/11کے بعد دنیا نے ایک واقعے کو اپنی اجتماعی یادداشت کا حصہ بنایا، تو انسانیت پر فرض ہے کہ6/11 کے شہدا کو بھی وہی اعتراف دیا جائے۔ وہ بھی بے گناہ تھے، ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ مسلمان تھے اور اپنی آزادی چاہتے تھے۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ سفارت کار، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور عالمی میڈیا جموں کے ان مظلوموں کی آواز بنیں۔ دنیا کے ایوانوں میں یہ سوال گونجنا چاہیے کہ کب تک کشمیریوں کا خون رائیگاں جائے گا؟ کب تک اقوامِ متحدہ کی قراردادیں کاغذوں میں دفن رہیں گی؟ اور کب تک انصاف کی ترازو طاقتوروں کے ہاتھوں میں جھولتی رہے گی؟یومِ شہدائے جموں ہمیں ماضی کا سوگ نہیں، بلکہ مستقبل کا وعدہ یاد دلاتا ہے وہ وعدہ کہ کشمیری قوم اپنی جدوجہدِ آزادی اس وقت تک جاری رکھے گی جب تک ظلم کا اندھیرا چھٹ نہیں جاتا۔ہری سنگھ سے مودی تک ظلم کی شکلیں بدلتی رہیں، مگر کشمیری عزم کی روشنی آج بھی قائم ہے۔ جب 6 نومبر کو آزاد کشمیر میں شہدا کے نام پر چراغ جلتے ہیں تو یہ روشنی اعلان کرتی ہے:ہم نے اپنے حصے کا فرض ادا کر دیا، اب تاریخ تمہیں آزما رہی ہے۔

