کالم

کیا ہم غلام ہیں

rohail-akbar

برطانیہ کی آنجہانی ملکہ الزبتھ دوم جو ہماری ملکہ بھی تھیں کی آخری رسومات ادا کرنے کے بعد سرکاری اعزاز کے ساتھ تدفین کردی گئی انکی آخری رسومات میں جہاں دنیا بھر سے 500 سے زائد سربراہان مملکت نے شرکت کی وہیں پر ہمارے وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے بھی جاکر تعزیت کی دعائیہ تقریبا ت کے بعد ملکہ الزبتھ دوم کے تابوت کو سرکاری اعزاز کے ساتھ ونڈزر کاسل میں سینٹ جارج چیپل کے رائل والٹ میں اتار دیا گیا سرکاری تدفین عام طور پر بادشاہوں اور ملکاﺅں کے لیے مخصوص ہے جس میں فوجی جلوس اور آخری دیدار جیسی رسومات شامل ہوتی ہیں ملکہ کو کنگ جارج ششم میموریل چیپل میں سپرد خاک کردیا گیا جس کے ساتھ ہی ملکہ راج کا خاتمہ ہوگیا ملکہ الزبتھ دوئم کی آخری رسومات میں شرکت کےلئے جو سربراہان پہنچے ان میں امریکی صدر جو بائیڈن، چین کے نائب صدر وینگ چھی شان، کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو، جاپان کے بادشاہ ناروہیٹو سے لے کر جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا، کوک آئی لینڈ کے وزیر اعظم مارک بران اور پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف سمیت متعدد اہم رہنما شامل تھے جبکہ چین کے صدر شی جن پھنگ، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سمیت چند اہم رہنما دعوت نامہ ملنے کے باوجود تقریب میں شریک نہیں ہوئے وینزویلا، شام اور افغانستان کو دعوت نامہ نہیں بھیجا گیا کیونکہ ان ممالک کے برطانیہ کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں ۔ ملکہ الزبتھ دوم 1926 کو پیدا ہوئیں اور 8 ستمبر 2022 کو 96 سال کی عمر میں وفات پا گئیں ملکہ الزبتھ دوم پاکستان کی دوسری ملکہ تھیں جو 1952 سے 23 مارچ 1956 تک پاکستان کی ملکہ رہیں ان سے قبل جارج ششم 1947 سے 1952 تک پاکستان کے بادشاہ رہے پاکستان 14اگست 1947 کو انتظامی لحاظ سے برطانیہ سے آزاد ہوا تھالیکن آئینی لحاظ سے ہم آزاد نہیں ہوئے تھے بلکہ ہم 23 مارچ 1956 تک برطانوی بادشاہت کے ماتحت تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ جب 14 اگست 1947 کو پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس وقت پاکستان کا اپنا کوئی آئین نہیں تھا عارضی طور پر برطانیہ کا دیا ہوا انڈین ایکٹ 1935 ترمیم کے بعد پاکستان میں نافذ کیا گیا تھا اسی لیے قائد اعظم نے 14 اگست 1947 کو صدر پاکستان کی بجائے گورنر جنرل کا حلف لیا تھا اور گورنر جنرل پاکستان میں برطانوی بادشاہ کا نمائندہ ہوتاتھا انڈیا میں بھی یہی صورت حال تھی وہاں کا گورنر جنرل بھی انڈیا میں برطانوی بادشاہ کی نمائندگی کرتا تھا خیر انڈیا نے تو جلدی اپنا آئین بنا لیا اور برطانوی بادشاہت سے آزاد ہو گیا اور ان کا گورنر جنرل اپنے آئین کے تحت انڈیا کا صدر بن گیا لیکن پاکستان میں صورتِ حال مختلف تھی ہم آزاد ہونے کے باوجود غیر محسوس طریقے سے غلام تھے اندرونی لڑائی جھگڑوں اور اقتدار کی رسہ کشیوں میں ہم اتنا مشغول ہوگئے کہ 9 سال تک اپنا آئین ہی نہ بنا سکے اور پاکستان میں گورنر جنرل 9 سال تک برطانوی بادشاہت کا نمائندہ رہا آئین کے مطابق گورنر جنرل برطانوی بادشاہ کو جواب دہ تھا پاکستان کے پہلے گورنر جنرل قائدِ اعظم محمد علی جناح تھے انہیں زندگی نے اتنا موقع ہی نہیں دیا کہ وہ چند سال جی ہاں صرف چند سال اور زندہ رہ جاتے تو آج ہم اس طرح کے پاکستان میں نہ ہوتے جہاں حکمران اربوں ڈالر کے مالک ہوں اور پھر بھی وہ سیلاب میں ڈوبی ہوئی قوم کےلئے غیروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں ان گزرے ہوئے 75سالوں میں ہم نے سوائے لوٹ مار اور فراڈ کے کچھ کیا اور نہ ہی کچھ آگے کچھ کرنے کا ارادہ ہے اگر چند لوگ پاکستان اور پاکستانیوں سے پیار کا جذبہ رکھتے ہیں جہالت کی دلدل میں ڈوبی ہوئی بے شعوری قوم کو تعلیم کی روشنی کے ذریعے بیدار کرنا چاہتے ہیں تو ہم سب ملکر انکی ٹانگیں کھینچنا شروع کردیتے ہیں پاکستان سرمایہ داروں اور جاگیر داروں نے نہیں بنایا تھا بلکہ برصغیر پاک وہند کے غریب ،مظلوم ،پسے اور پسماندہ طبقے نے اپنے پیاروں کی قربانیاں دیکر حاصل کیا تھا مگر اس پر براجمان وہ طبقہ ہوگیا جو انگریزوں کا غلام تھاحصول پاکستان کے لیے گلی گلی میں پاکستان کا مطلب کیا کا علم بلند رکھنے والوں نے ہی اپنے خاندانوں کی قربانیاں دی اپنے ماں باپ ،بہن بھائیوں کے اپنے سامنے گلے کٹتے دیکھے اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں اپنی آنکھوں کے سامنے برباد ہوتی دیکھی کئی کئی دن فاقے برداشت کیے تب جاکر پاک وطن کی سرزمین پر قدم رکھنا نصیب ہواتھاہمارا سفر تو پاکستان بننے سے پہلے کا شروع ہے جو ابھی تک ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا سرمایہ دار اور جاگیر دار وہاں بھی غلامی کے زور پر خوش تھا یہاں بھی غلامی کے ساتھ مزے میں ہے بات کہاں سے کہاں نکل گئی پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین تھے پاکستان کے تیسرے گورنر جنرل غلام محمد تھے پاکستان کے چوتھے گورنر جنرل سکندر مرزا تھے جب پاکستان کا پہلا آئین 23 مارچ 1956 کو ملک میں نافذ کیا گیا تو اس وقت پاکستان کے آئین کے تحت چوتھے گورنر جنرل سکندر مرزا پاکستان کے پہلے صدر بنے ہمیں آج تک معلوم نہیں ہوسکا کہ 14 اگست 1947 سے 23 مارچ 1956 تک پاکستان کا آئینی سربراہ کون تھا قائدِ اعظم نے 14 اگست 1947 کو گورنر جنرل کا حلف کیوں اٹھایا وہ صدر پاکستان کیوں نہ بنے شائد آنے والا وقت بتادے کہ ایسا کیوں کیاآج ہم آئین کی بات کرتے ہیں اور اگر آئینی طور پر دیکھا جائے تو 14 اگست 1947 سے 23 مارچ 1956 تک برطانیہ کا بادشاہ ہی پاکستان کا آئینی سربراہ تھا اور گورنر جنرل پاکستان میں برطانوی بادشاہ کا نمائندہ تھا اس لیے پاکستان کا پہلا بادشاہ جارج ششم تھا جو 14اگست 1947 سے 1952 اپنی وفات تک ہمارا بادشاہ رہااس کی وفات کے بعد 1952 سے 23 مارچ 1956 تک ملکہ ازبتھ دوم ہماری ملکہ رہیں ہم آزاد ہوکر بھی آزاد نہیں ہوسکے کیا ہم واقعی غلام ہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے