کالم

اساتذہ کے ساتھ احترام کارشتہ

انتخابی منشور۔

ہمارے معاشرے میں وقت کے ساتھ ساتھ استاد کے ادب واحترام کو بھولا جارہا ہے اور شاید اسی لیے آج ہم اخلاقی و سماجی مسائل سے دوچار ہوتے جارہے ہیں۔ ماضی میں اساتذہ کی قدرو منزلت یہ تھی کہ جب تک استاد بیٹھ نہیں جاتے تھے طلبہ ان سے پہلے بیٹھنے کی جرات و جسارت نہیں کرتے تھے مگر آج ایسا نہیں ہے ۔ آج کے جدید دور میں ہم اپنی ثقافت اور اقدار کو بھولتے جارہے ہیں۔ اور اس بات سے سر مو انحراف نہیں کیا جا سکتا کہ استاد کا احترام کیے بغیر معاشرے میں بہتر مقام حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارے معاشرے میں استاد کو وہ عزت و احترام نہیں دیا جاتا جو اس کا حق ہے۔ حالانکہ استاد کا مقام ومرتبہ بہت اعلیٰ و افضل ہے۔ ان کی عزت کرنا یا ان کی تعظیم و توقیر کرنا محض طلبہ کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ معاشرے کے ہر فرد کو ان کا احترام کرنا چاہیئے۔ لہٰذا ہر لمحہ انکے مقام و مرتبہ کا لحاظ رکھنا چاہیئے۔ چند صدیوں پہلے ہمارے اکابرین اور بزرگوں کے متعدد ایسے واقعات وحالات ملتے ہیں جن میں وہ اپنے اساتذہ کے ادب کا احترام کا درجہ اہتمام کرتے تھے۔ اس زمانے میں جن لوگوں نے اپنے اساتذہ کی قدرو قیمت جانتے ہوئے علم سیکھنے کے ساتھ ساتھ ان کے ادب و احترام کو ملحوظ رکھا اور ان کی خدمت کو اپنا فرض سمجھا‘ آج دنیا میں ان کے نام کا ڈنکا بج رہا ہے۔ دنیا میں ہرسو ان کا تذکرہ ہے۔ سب سے بڑی مثال حضرت علی المرتضیٰ شیر خدا رضی اللہ عنہ کی ہے کہ آپؓ نے فرمایا تھا:”جس شخص سے میں نے ایک لفظ بھی پڑھا میں اس کا غلام ہوں۔ چاہے وہ مجھے بیچ دے یا آزاد کردے۔“ یہ جملہ بظاہر معمولی سا نظر آتا ہے لیکن دورِ حاضر کے تناظر میں اس جملے پر غور کیا جائے تو اس کی گہرائی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ آج کے دور میں طلبہ اپنے اساتذہ سے کئی کئی سال تعلیم حاصل کرکے بھی ان کو وہ قدر وقیمت نہیں دیتے جو ان کا حق ہے لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے اساتذہ کے سامنے اپنے آپ کو ایک غلام کی حیثیت سے بیان کرکے رہتی دنیا تک کےلئے نمونہ اور مثال قائم کردی۔محبی ڈاکٹر اختر شمار نے بڑے اہم مسئلے کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اساتذہ وہ مسکین طبقہ ہے کہ اسے اداروں میں بھی حاضری دینی ہے اور آن لائن پڑھنے والوں کو بھی وقت دینا پڑتا ہے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل ایک خبرسوشل میڈیا پر گردش کررہی تھی کہ پی ٹی آئی حکومت نے اساتذہ کی عزت وتکریم کےلئے چند ضروری اقدامات کیے ہیں۔ ایک تو اساتذہ کی گاڑیوں پر ”ٹیچر“ کا سٹکر لگے گا اور دوسرا پولیس والے اساتذہ کو سیلوٹ کیا کریں گے ۔ ہم نے یہ خبرپڑھ کر مسرت کا اظہار کیا تھا مگر اگلے روز ہی ہماری آنکھوں نے ایک ظالمانہ منظر دیکھ کر چُپ سادھ لی۔ دیکھتے کیا ہیں کہ پشاور یونیورسٹی کے اساتذہ پر پولیس نہایت بیدردی سے لاٹھی چارج میں مصروف ہے۔ گویا جس پولیس نے اساتذہ کو سیلوٹ کرنا تھا وہ نہتے اور بے بس اساتذہ پر لاٹھیاں برسا رہی ہے اور آنسوگیس کی شیلنگ جاری ہے ۔ صوبہ خیبرپختونخوا میں جہاں پی ٹی آئی کی دوسری ٹرم ہے وہاں کے اساتذہ کی تذلیل سکرینوں پر ساری دنیا دیکھ رہی تھی۔ان اساتذہ کا قصور صرف یہ تھاکہ وہ اپنی تنخواہوں میں کٹوتی پر سراپا احتجاج تھے۔ عموماً یہ ہوتا ہے کہ سرکاری ملازمین تنخواہوں میں اضافے کے مطالبے کے دوران پولیس کے ستم کا شکار ہوا کرتے ہیں ۔ ملازمت کی مجبوری کے باعث سب کو ویکسین لگوانی پڑی….حالانکہ کئی اور سرکاری ادارے ابھی رہتے ہیں جنہیں ویکسین لگنی ہے۔ شاید پولیس،فوج، عدلیہ اور بیوروکریسی میں بھی بہت سے لوگ ابھی ویکسین نہیں لگوا سکے ۔ لیکن اساتذہ وہ واحد طبقہ ہے کہ الیکشن ہو، پولیوقطرے پلانے کی ڈیوٹی ہو یا ڈینگی مہم میں مدددرکار ہو اساتذہ کو آسان ہدف سمجھ کردبوچ لیا جاتا ہے اور حکم عدولی پر انہیں سزائیں بھی دی جاتی ہیں۔ اسی طبقے سے مکمل سالانہ آمدنی کا ٹیکس بھی تنخواہوں ہی سے کاٹ لیا جاتا ہے۔ ہماری ذاتی رائے یہ ہے کہ ٹیکس اس رقم پر لگنا چاہیے جو سال بھر کسی بینک میں پڑی ہو۔ تنخواہ دیتے وقت ہی پہلے ٹیکس کاٹ لینا سراسرناانصافی ہے۔ یہ تنخواہیں وصول ہوتے ہی خرچ ہوجاتی ہیں تو انہیں ”آمدن“ کہنا بھی مذاق لگتا ہے…. پی ٹی آئی کی حکومت نے اساتذہ کی تکریم کے سلسلے میں اچھے اقدامات کیے ہیں اس شدید گرم موسم میں ڈیوٹی دینے کے ساتھ گھر آکر آن لائن بھی پڑھاتے ہیں۔ایسے ”سیلوٹ“ کو حکمران اپنے لیے مخصوص رکھیں۔ وہ معاشرے اور ہوتے ہیں جو اساتذہ کی تکریم اور احترام دیگر تمام طبقوں سے زیادہ کرتے ہیں ۔ تکریم ان کی گھٹی میں شامل ہوتی ہے ان معاشروں میں رواں دواں سگنل ٹریفک رک جاتے ہیں اور استاد کو پہلے گزارا جاتا ہے وہاں کے ججز استاد کی تکریم اپنی سیٹ پر احتراما کھڑے ہو جاتے ہیں تاریخ کی کتابوں میں خلیفہ ہارون رشید کا ایک واقعہ نقل کیا گیا ہے کہ ان کے دربار میں جب کسی عالم دین کی تشریف آوری ہوتی تو ہارون رشید ان کے استقبال کےلئے کھڑے ہوجاتے۔ ہارون رشید کے اس فعل پر ان کے در باریوں نے کہا کہ آپ کے اس فعل سے سلطنت کا رعب جاتارہے گا تو ہارو ن رشید نے اس پر جواب دیا کہ اگر علماءدین کی تعظیم سے رعب سلطنت جاتا ہے تو چلا جائے۔ مشہور فلسفی، مفکر اورماہر منطق ارسطو کے شاگرد سکندر اعظم کے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ وہ استاد کا بے حد احترام کرتا تھا۔ کسی نے اس سے اس کی وجہ پوچھی تو سکندر نے جواب دیا: میرا باپ مجھے آسمان سے زمین پر لایا۔ جبکہ میرا استا د ارسطو مجھے زمین سے آسمان پر لے گیا۔ میرا باپ باعث حیات ِ فانی ہے اور استاد موجب حیات جاوداں۔ میر ا باپ میرے جسم کی پرورش کرتا ہے اور استاد میری روح کی ۔ بعض ممالک میں اساتذہ کی تنخواہیں سب سے زیادہ ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ نئی نسل کی آبیاری میں اساتذہ کا کتنا کردار ہوتا ہے اساتذہ قوم کی تعمیر کرتے ہیں مگر تعلیم کا بجٹ دیکھ کر اور اساتذہ کی تذلیل سے مترشح ہے کہ چند ارباب بسط کشاد میں سے استاد کو اس کا جائز مقام دینے سے اغماض برت رہے ہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے