ہمارا یہ مزاج ہے کہ ہم نجی محفلوں میں غیر حاضر لوگوں کو جن سے تعلق ہوتا ہے برا کہتے ہیں ، گلہ شکوہ اور شکایت ہونٹوں پر سجی رہتی ہے ۔ ہم یہ کبھی نہیں سوچتے کہ ہم نے دوسروں کیلئے کیا سود مند کام کیا ، صرف اپنی ذات تک جئے تو کیا جیئے۔ مغرب کی نماز ادا کرنے مسجد جارہا تھا کہ میرے پڑوس میں رہنے والے صاحب بھی راستے کے ساتھی بن گئے ، سڑک پر درخت سے ٹوٹی ہوئی شاخیں کافی تعداد میں پڑی تھیں ، ہم دونوں نے انہیں اٹھاکر سڑک کے کنارے رکھنا شروع کردیا تاکہ آنے جانے والوں کو سہولت ہو ورنہ گاڑیاں بھی مشکل سے گزر رہی تھیں ۔ صاحب جو پیچھے چلے آرہے تھے انہوں نے بڑے مزاحیہ انداز میں یہ جملہ کسا”جناب سی ڈی اے سے صفائی کا ٹھیکہ آپ نے لے لیا ہے “ یہ جملہ ادا کرکے وہ ہنستے ہوئے آگے نکل گئے ۔ یہ جملہ ان کے مزاج کی عکاسی کیلئے کافی تھا ۔ ہم نے کوئی جواب نہیں دیا بلکہ مسکراکر خاموش ہوگئے ۔ اگر غور کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ معاشرے کی اخلاقی اقدار بالکل تباہ ہوچکی ہیں ۔ انفرادیت کا زہر چا سو پھیلا ہوا ہے ۔ بھائی کو بھائی سے محبت نہیں ، بہن کو بھائیوں کی بے رخی پر نوحہ پڑھ رہی ہے ۔ ماں باپ اولاد سے توجہ کے طالب ہیں لیکن انہیں مصروف زندگی سے اتنا وقت نہیں ملتا کہ وہ بوڑھے والدین کے ساتھ کچھ وقت گزار سکیں ۔ نہ رشتوں کا تقدس باقی رہا اور نہ ہی میل جول میں گرم جوشی ۔ مغرب کی اندھی تقلید ہمیں اندر سے کھوکھلا کر رہی ہے ۔ کسی زمانے میں جوائنٹ فیملی سسٹم تھا ، سب مل جل کر رہتے تھے ، اب یہ سسٹم بکھر تا چلا جارہا ہے ۔ سب امیر کبیر بننے کی دوڑ میں ہانپ رہے ہیں ۔ فانی نے کیا امیر ہونا۔ دنیا میںآتے وقت بھی خالی ہاتھ تھا جاتے ہوئے بھی خالی ہاتھ ہوتا ہے ۔ وہاں امارت کی اشیاءلے جانا منع ہیں ۔ کچھ لے جاسکتا ہی نہیں ،خالی ہوکر جانا ہے ۔ دوسروں کے کندھوں پر سوار ہوکر کلمہ”شہادت کی گونج میں لیکن تمنا کا سفر حاصل ہوتا رہے تو بھی نقصان ہے اور اگر تمنا پوری نہ ہو تب بھی مفید ہوسکتا ہے ۔ یہ احساس ہے ۔ ہم نے اپنے رشتوں کو سود و زیاں کے خانوں میں بانٹ رکھا ہے ۔ ہم نے جس کو اپنا کہہ دیا پھر وہ ہمیشہ اپنا ہی رہنا چاہیے ۔بدلتے موسموں کی طرح کیفیت بدلتی نہیں رہنی چاہیے ۔ ہم نے اگر کسی کو دوست کہہ دیا تو دوست کا ہونا ہمارے لئے خوشی کا باعث ہو ۔ دوست کی یاد خوشی کا ذریعہ ہے ۔ چاند کا ہونابھی خوشی اور چاندنی بھی خوشی کا نظارہ ، اسکی یاد بھی خوشیوں کی رت۔ دوست کے پاس اس سے زیادہ تحفہ کوئی نہیں کہ وہ اپنی یاد کا تحفہ دے جائے ۔ ہم صرف طلب کی وسعتوں میں بکھرتے چلے جارہے ہیں ۔ ہم راستہ بھٹک چکے ہیں ۔ ہم زندگی کی بھول بھلیوں میںبھٹکے ہوئے ہیں ۔ تکبر ، بڑائی ، غرور کی تہیں ہمارے چہروں پر سجی ہیں ۔ دوسروں کے ذریعے اپنے عمل کا نام رکھوانا ہی گمراہی ہے ۔ اگر سو چا جائے تو یہ حقیقت کھلتی ہے کہ مرنے والے انسان نے کیا تکبر کرنا ہے ، اس نے خواہشات کے خمیے میں کیا پاو¿ں پسارنے ہیں ، تکبر تو باقی کو زیب دیتا ہے ۔ انسان جو اس جامے میں آیا ہے وہ عاجزی کا جامہ ہے ۔ عاجزی ہی اسکا زیور ہے ،یہی اس کا اصل ہے اور یہی اس کا انجام۔ اگر تھوڑا غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ جاگنے کا تکبر سونے کی عاجزی میں گم ہوجاتا ہے ۔ جاننا جہالت میں گم ہوجاتا ہے ۔، صحت بیماری کی عاجزی میں گم ہوجاتی ہے ۔ ہونانہ ہونے میں گرفتار ہوجاتا ہے ۔ اس لئے تکبر جہالت ہی کا نام ہے ۔ لا علمی کا نام ہے ۔ علم کی ابتداءعاجزی سے ہوتی ہے ۔ تکبر محرومی کی ابتداءکا نام ہے ۔ یہ استغفار کا مقام ہوتا ہے کیونکہ محرومی ابتداءہوتی ہے ۔ عاجزی ترقی کی ابتداءہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ محرومی سے بچائے ۔ بزرگوں کے پاس رہ کر تکبر نہیں آتا ،پرانے بزرگ اللہ اور اس کے محبوب کی یاد کو تازہ کرتے رہتے تھے ۔ اب تو بزرگوں کا ادب کرنا مشکل مرحلہ ہوتا جارہا ہے کیونکہ اپنی ذات کی نفی کرکے ہی کچھ حاصل ہوتا ہے ۔ یہ نہیں سوچتے کہ ہم چلتا پھرتا ،بولتا ، ہڈیوں ک اڈھانچہ ہیں ۔ زمین نے ان ڈھانچوں کو اپنی گود میں سمیٹا ہوا ہے ۔ مٹی پر مٹی چلتی جارہی ہے ۔ ہزاروں رنگ برنگے لباس زیب تن ہیں آخر میں مٹی مٹی مین مل جائے گی۔ مٹی تو روز اعلان کرتی ہے کہ میں تمہارے قریب ہوں ۔قریبی رشتوں کا دائمی زندگی میں چلے جانا تو ہم روزانہ دیکھتے ہیں ۔ اصل میں دریا کا رخ ہماری طرف ہوچکا ہوتا ہے ، ہم زندگی کی رنگ رلیوں میں توجہ ہی نہیں دیتے ، نفس کی دنیا کا پیغام وسیلہ ہوتا ہے ۔ اس بارہ دری سے نکلنے کو طبیعت مائل نہیں ہوتی ۔ سنبھلنے کو دل نہیں مانتا ،دماغ اڑیل گھوڑے کی طرح بے قابو ہوکر سچ کی چابکوں سے ٹریک پر نہیں آتا، بدقسمتی سے ہمیں شو ق کی میئے پینے کا حوصلہ نہیں جہاں شوق ہو وہاں تھکاوٹ یا کلفت نہیں ، اگر شوق کی کمی ہو تو عبادت نہیں پھر وہ ساری لیبر ہے لیکن اللہ کے ہاں لیبر کا کھاتہ نہیں ، شوق نہیں توکچھ بھی نہیں ۔ وجودی عبادت سے شوق کی عباد ت کہیں بہتر ہے ۔ شوق تھکنے کا نام نہیں ریسٹ کی خواہش شوق نہیں ۔ شوق تو آسانیاں پیدا کرتا ہے ۔ ہمارے ہاں عبادت کا جو تصور ہے وہ رجوع الی اللہ کا تصور ہے ۔ انسان کا اللہ سے تعلق انسان کا انسانوں سے تعلق ہم اس تعلق میں ناکام ہوتے ہیں ۔ حالانکہ ہر حال میں خوش اور راضی رہنا ہی انسان میں نیکی ابتداءہے ۔ ہم اعتراض کی دنیا آبادرکھنے کی کوشش میں زندگی ضائع کر بیٹھے ہیں ۔بہر حال اسی طرح ہم زندگی کے ہر پہلو پر معترض رہنے کے عادی ہیں ۔ ہم اللہ کے بنائے ہوئے اس سسٹم پر غور نہیں کرتے کہ اللہ جسم کو اوور حال کرتا ہے ۔ پسینے سے فاسد مادے جسم سے خارج ہوتے ہیں اور پانی کی پیاس جو بار بار پانی پینے سے اکساتی ہے اس سے اندر کی صفائی ہوتی ہے ۔ کثافتیں ختم ہوتی ہیں لیکن روح کی پاکیزگی برقرار رکھنے کیلئے ذکر الٰہی ہے جس سے ہم دور بھاگتے ہیں ۔ صرف جسم کی خواہشات پوری کرنے میں لگے رہتے ہیں ، روح میںتشنگی برقرار رہتی ہے ۔ ہم نے مین میڈ نظام کو اپنا لیا ہے اللہ کے نظام کو بھولے ہوئے ہیں ۔ اعترافات کی چادرمیں پلٹے ہوئے انسان کی آنکھوں پر ذاتی مفادات کی پٹی بندھی ہے جس نے سب کچھ دھندلا دیا ہے ۔ ہم اپنے آپ کے بھی نہیں رہے ایسے میں کیا رشتے اور کیا معاشرت ، ہم تو ملک کے وفادار بننے کیلئے بھی سوچ بچار کے مراقبے میں پھنسے رہتے ہیں ۔ محبت سے عاری انسان معاشرے کا لازمی جزو ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ محبت کوشش یا محنت سے حاصل نہیں ہوتی یہ عطا ہے نصیب کی بات ہے ۔
کالم
شوق نہیں تو کچھ بھی نہیں
- by Daily Pakistan
- نومبر 21, 2022
- 0 Comments
- Less than a minute
- 517 Views
- 2 سال ago