اداریہ کالم

نئے آرمی چیف کی تقرری،معاملہ خوش اسلوبی سے نمٹایا جائے

idaria

وزیراعظم ہاواس نے آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے تقرر کے حوالے سے ناموں کے پینل کی سمری موصول ہونے کی تصدیق کردی ہے۔ دوسری جانب پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق جنرل ہیڈکوارٹرز(جی ایچ کیو)نے آرمی چیف کی تعیناتی کیلئے سمری وزارت دفاع کو بھیج دینے کی تصدیق کر دی۔ سمری میں سینئر موسٹ چھ لیفٹیننٹ جنرلز کے نام آئے ہیں۔جس میں سب سے پہلے نام لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کا ہے، پھر لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا ہیں، پھر لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس ہیں، پھر لیفٹیننٹ جنرل نعمان محمود ہیں، پھر لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اور پھر لیفٹیننٹ جنرل محمد عامر ہیں، اسی سینیارٹی کے ساتھ یہ نام وزیراعظم آفس کے پاس آئے ہیں۔ اب یہ وزیراعظم کا اختیار ہے کہ وہ کس کو اپوائنٹ کرتے ہیں، امید ہے ایک آدھ دن میں فیصلہ ہوجائیگا۔ وزیراعظم آفس کی جانب سے کی گئی ٹوئٹ کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف مروجہ طریقہ کار کے مطابق ان تعیناتیوں سے متعلق فیصلہ کریں گے۔گزشتہ رات وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی ٹوئٹ کر کے کہا تھا کہ وزارت دفاع نے سمری وزیراعظم آفس کو ارسال کردی ہے، بقیہ تمام طریقہ کار بھی جلد مکمل کر لیا جائے گا۔ اس سے قبل ایک ٹی وی ٹاک شو میں شرکت کرتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا تھا کہ فوج اور حکومت کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے اور اس حوالے سے مختلف حلقوں کی جانب سے جو خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں وہ سب بے بنیاد ہیں۔معلوم ہوا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف سبکدوش ہونے والے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے آج جمعرات کو ان کے جانشین کے انتخاب کے حوالے سے مشاورت کریں گے۔یہ ایک روایت ہے کہ وزیر اعظم اس سبکدوش ہونے والے فوج کے سربراہ سے مشاورت کرتے ہیں تاہم اسے غیر رسمی مشاورت بیان کیا جاتا ہے۔ تقرریوں پر غور کے لیے آج جمعرات کو وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس بھی طلب کر لیا گیا ہے، وزیراعظم فوجی سربراہ کے انتخاب کے بعد صدر عارف علوی کو اگلا آرمی چیف مقرر کرنے کا مشورہ دیں گے ۔اس پس منظر میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ اب معاملات خوش اسلوب کے ساتھ آگے بڑھ جائیں گے،یہاں یہ بات بہت اہم ہے کہ آرمی چیف کی تقرری کے معاملے کو اتنی ہوا نہیں ملنی چاہیے تھی۔یہ بات ہر حوالے سے ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔یہ بات درست اور قرین قیاس ہے کہ پاکستان میں جاری اقتصادی اور سیاسی بحرانوں میں فوجی سربراہ کی تقرری پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ نئے آرمی چیف اندرون ملک جاری سیاسی بحران کو ختم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔ پاکستان ایک جوہری ملک ہے اس لحاظ اس آئین عہدے کی حساسیت اور بڑھ جاتی ہے۔نئے آرمی چیف اس ماہ کے آخر میں عہدہ سنبھال لیں گے۔ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اپنی ملازمت کی مدت پوری پر ریٹائر ہو رہے ہیں۔ بحرانوں کے شکار پاکستان میں فوج ملک کا سب سے طاقتور ادارہ ہے۔ پاکستان کی آزادی اور قیام کے 75 برسوں کے دوران ملک نے کئی بحران دیکھے ہیں، قوم نے ان بحرانوں سے نکلنے کےلئے ہمیشہ فوج کی طرف دیکھا۔اب ایک بار پھر سیاسی بحران ہے دیکھتے ہیں کی آنے والے آرمی چیف کیسے ملک کو اس سیاسی بحران سے نکالنے میں مثبت کردار ادا کرتے ہیں،یقینا نئے آرمی چیف پر بھاری ذمہ دار ی ہو گی،لیکن امید واثق ہے کہ وہ قوم کو مایوس نہیں کریں گے۔پاک فوج پیشہ ورانہ لحاظ سے دنیا میں جانی پہچانی جانی جاتی ہے۔ پاکستان خطے میں کئی خطرات سے گھرا ہو ا،اس لئے سلامتی کے معاملات اور خارجہ امور پر اس کا گہرا اثر و رسوخ برقرار رہتا ہے۔دوسری طرف اگر دیکھیں تو 2016 میںپاک فوج کی کمان سنبھالنے کے بعد جنرل باجوہ نے چین اور امریکہ کے ساتھ تعلقات میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اس دوران جہاں اسلام آباد بیجنگ کے قریب ہوا وہیں پر جنرل قمر جاوید باجوہ نے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے کے لیے بھی کام کیا۔اس ضمن میں پاک فوج نے 2021 میں کابل سے امریکی اور مغربی فوجوں کے انخلا کے دوران امریکہ کے ساتھ قریبی تعاون کیا۔ جنرل باجوہ نے ملک کے معاشی معاملات میں بھی بھرپور دلچسپی لی، ساتھ ہی انہوں نے بیجنگ اور مشرق وسطیٰ کے انتہائی اہم دورے بھی کیے ،ان دوروں میں پاکستان کے لیے مالی امداد حاصل کرنے میں مدد کی۔ انہوں نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کےساتھ معاہدہ کرنے میں مدد کے لیے واشنگٹن سے لابنگ بھی کی۔ یہاں تک کہ انہوں نے پاکستان کے سرکردہ صنعت کاروں کے ساتھ کئی میٹنگز بھی کیں۔
پاک جنوبی افریقہ دوطرفہ تجارتی تعلقات بڑھانے پر اتفاق
وفاقی وزیر تجارت سید نوید قمر سے پاکستان میں جنوبی افریقہ کے ہائی کمشنر ایم مدکیز انے نے انکے دفتر میں ملاقات کی۔ ملاقات میں تیسری پاکستان افریقہ ٹریڈ ڈویلپمنٹ کانفرنس اور سنگل کنٹری نمائش پر خصوصی توجہ کے ساتھ پاکستان جنوبی افریقہ دو طرفہ تجارت کے مختلف پہلوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ا س موقع پرگفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر سید نوید قمر نے بتایا کہ وزارت تجارت اور سرمایہ کاری 29 نومبر سے یکم دسمبر 2022 تک جوہانسبرگ، جنوبی افریقہ میں تیسری پاکستان افریقہ ٹریڈ ڈویلپمنٹ کانفرنس اور سنگل کنٹری نمائش کا انعقاد کر رہی ہے۔پاکستان سے تقریبا 225 نمائش کنندگان اور کاروباری مندوبین پر مشتمل ایک وفد جو کہ دواسازی، ٹریکٹر/زرعی مشینری، انجینئرنگ کے سامان، کھیلوں کے سامان اور کیمیکل سمیت بیس بڑے شعبوں کی نمائندگی کرتا ہے، تیسری پاکستان افریقہ ٹریڈ ڈویلپمنٹ کانفرنس اور سنگل کنٹری نمائش میں شرکت کےلئے جوہانسبرگ کا دورہ کر رہا ہے۔سنگل کنٹری نمائش میں لگ بھگ 130 کمپنیاں اپنی مصنوعات کی نمائش کریں گی۔ساتھ افریقن ڈیولپمنٹ کمیونٹی کے 16 رکن ممالک کے عہدیداروں اور کاروباری شخصیات کو کانفرنس میں شرکت کےلئے مدعو کیا گیا ہے۔ کانفرنس میں جنوبی افریقہ کے معززین بھی شرکت کریں گے جن میں جنوبی افریقہ کے وزیر تجارت و صنعت شامل ہیں جنہیں بطور مہمان خصوصی مدعو کیا گیا ہے۔ پاکستان جنوبی افریقہ کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے اور لک افریقہ پالیسی اقدام کے تحت دوطرفہ تعلقات کو مزید گہرا کرنے کا منتظر ہے۔ تجارت بڑھانے کیلئے چیزوں کو سٹریم لائن کرنے ضرورت ہے اور وقت اور پیسہ بچانے کے لئے براہ راست طریقہ کار اور راستے تلاش کرنے کی اشد ضروری ہے۔جنوبی افریقی ہائی کمشنر ایم مدکیزا نے تیسری پاک افریقہ تجارتی ترقی کانفرنس اور سنگل کنٹری نمائش کے انعقاد میں اپنی حکومت کی غیر متزلزل حمایت کا یقین دلایا۔ ہائی کمشنر نے خاص طور پر آم کی درآمدات، ادویات، تعلیم، کپاس اور جنگلی جانوروں کی تجارت کے حجم کو بڑھانے میں گہری دلچسپی کا ظاہر کی۔ بعد ازاں دونوں فریقوں نے دوطرفہ تجارتی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔
جنوبی وزیرستان میں ایک اورسپوت وطن پرقربان
خیبرپختونخوا کے ضلع جنوبی وزیرستان کے علاقہ سراروغہ میں سکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا، اس دوران سکیورٹی فورسز کی طرف سے دہشت گردوں کے ٹھکانے کو کامیابی سے نشانہ بنایا گیا۔شدید فائرنگ کے تبادلے کے دوران حوالدار عمر حیات بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہو گیا ۔ شہید حوالدارعمر حیات کی عمر 39 سال ہے جبکہ تعلق لاچی کوہاٹ سے تھا۔علاقے میں ممکنہ دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے آپریشن جاری ہے، پاک فوج دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے پر عزم ہے، ہمارے جوانوں کی قربانیاں ہمارے عزم کومزید مضبوط کرتی ہیں۔حالیہ کچھ عرصہ میں دہشت گردانہ حملوں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔اس سلسلے میںحکومت اور سکیورٹی اداروں کو مزید سخت اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے،چاہے اس کےلئے آپریشن ضرب عضب یا کومبنگ آپریشن جیسا کامیاب کوئی اور آپریشن ہی کیوں نہ لانچ کرنا پڑے۔ ماضی میں پاک فوج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہترین حکمت عملی اختیار کی جس کے باعث دہشت گردی کاقلع قمع ممکن ہوسکا ۔ لیکن کچھ شرپسندابھی بھی ملک کے مختلف علاقوں میں چھپے ہوئے ہیں اورموقع ملنے پرچھوٹی موٹی کارروائیاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے جواب میں ہماری بہادرسیکیورٹی فورسز ان کے عزائم کوناکام بناتی ہیں۔پوری قوم کو سیکیورٹی فورسز پرفخرہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے