کالم

افغان شہریوں کی سندھ کی جیلوں سے رہائی

پاک افغان کشیدہ صورتحال کے باوجود پاکستان نے افغان سفارتخانے کی درخواست پر پاکستان میں غیر قانونی رہائش پذیر 524افغان شہریوں کو رہا کر دیا ہے۔یہ پاکستان کی جانب سے خیر سگالی کا بھرپور اظہار ہے کہ افغان سفارتخانے کی درخواست پر، پاکستان نے اتنی بڑی میںان افغان شہریوں کو رہا کیا جو قانونی رہائش اورسفری دستاویزات کے بغیر رہ رہے تھے۔افغان حکام نے بھی پانچ سو سے زائد افغان شہریوں کی رہائی تصدیق کر دی ہے ، جیل سے رہا ہونے والوں میں 54خواتین اور 97بچے بھی شامل ہیں۔ان سب کو اب واپس افغانستان بھیج دیا جائے گا۔اسکے علاوہ، حکومت نے جیل کی مدت پوری ہونے کے بعد دیگرجیلوں میں قید افغان شہریوں کو ڈی پورٹ کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔افغانستان نے پاکستانی حکام کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے اور اس سے افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں مزید بہتری آئے گی۔اسی طرح قید میں ایک افغان قیدی کا انتقال بھی ہوا اس کی میت کو واپس پہنچایا جا رہا ہے۔ متوفی علاج کےلئے پاکستان آیا تھاپاکستان میں چونکہ حالیہ دنوں میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے تو ایک بار پھر سیکیورٹی اداروں نے اپنی کارروائیاں تیز کر رکھی ہیں، گزشتہ ماہ غیر قانونی دستاویزات کےساتھ کراچی میں داخل ہونے والے کئی افغان شہریوں کےخلاف متعدد چھاپے مار کر قریب 1200 افراد کو حراست میں لیا تھا۔
پاکستان چار دہائیوں سے افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے، دونوں ممالک تعلقات بگاڑنے والے مٹھی بھر عناصر کے مفادات کی تکمیل کےلئے باہمی تعاون کو ضائع نہیں کیا جانا چاہیے۔پاک افغان باہمی تعلقات اگرچہ اکثر ہی کشیدہ رہتے ہیں،اندنوں بھی کشیدگی موجود ہے ،اس کشیدگی کی کوئی نا کوئی وجہ سامنے آتی رہتی ہے، حالیہ دنوں میں پاکستان کی سرحد پر افغانستان سے ہونے حملے اور افغانستان میں چھپی بیٹھی ٹی ٹی پی کی پاکستان میں دہشت گردی نے ماحول دو آتشہ کررکھا ہے،پاکستان نے افغان حکام پر اس ضمن میں دباو¿ بڑھایا تو دوسری جانب افغان اور بھارتی سوشل میڈیا پر پاکستان میں گرفتار افغان شہریوں کے بارے میں شور مچانا شروع کر دیا۔یوں اس گرما گرم سوشل میڈیا وار نے ان دونوں پڑوسی ممالک کے تعلقات میں مزید تلخی پیدا کی ہے۔ان افغان شہریوں کے خلاف کارروائی مکمل طور پر قانونی تھی کیونکہ ان کے پاس کسی قسم کی قانونی دستا ویزات نہیں تھیں،دنیا کا کونسا ملک ہے جو کسی بیرونی شہریوں کو اپنے ملک میں آوارہ چلنے پھرنے دے اور وہ جہاں چاہیں جو چاہیں کرتے پھرتے رہیں۔لیکن ایک منصوبہ بندی کے تحت پاکستان کو بدنام کیا گیا،صوبہ سندھ کی پولیس نے اپنا موقف بیان کرتے ہوئے بتایا تھا کہ متعدد چھاپوں میں افغان شہریوں کو حراست میں لیا گیا، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں،جو بغیر کسی سفری دستاویز کے کراچی میں داخل ہوئے تھے۔حکومت سندھ کے ترجمان مرتضی وہاب نے کہا تھاکہ انہی افغان شہریوں کو گرفتار کیا گیا ہے، جو غیر قانونی طور پر اس صوبے میں رہ رہے تھے۔انہوں نے دسمبر کے آخری ایام میں ہی نشاندہی کر دی تھی کہ ایسے افراد کو جلد از جلد ملک بدر کر دیا جائے گا۔ کراچی کی مقامی انتظامیہ اور پولیس نے مزید بتایا کہ زیر حراست افراد کو سزا مکمل ہونے یا پھر ان کے وکیل کی جانب سے کاغذی کارروائی مکمل کر لینے کے بعد ہی افغانستان واپس بھیجا جائے گا۔
پاکستان میں چار عشروں سے زائد لاکھوں افغان مہاجرین قیام پذیر ہیں جو جنگ اور سیاسی عدم استحکام کے سبب پاکستان کا رخ کرتے رہے ہیں۔ 2021 میں بین الاقوامی افواج کے انخلااور طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد ایک بار پھر بھاری تعداد میں افغان شہریوں نے ایران اور پاکستان میں داخل ہونا شروع کر دیا۔افغان حکام کو سوچنا چاہیے کہ خود ان کے اپنے ملک کے اندر غربت، بے روزگاری، خواتین کےساتھ ناروا سلوک اور دیگر انسانی حقوق سے متعلق زیادتیاں ،بڑے پیمانے پر افغان باشندوں کی نقل مکانی کا سبب ہیں ۔اگر انہیں اپنے شہریوں کی اتنی ہی فکر ہوتی تو وہ ان مسائل کا حل تلاش کرتے، نہ کہ پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتے ۔پاکستان اس ضمن میں تعاون کرنے کو بھی دل و جان سے تیار رہتا ہے۔ طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعدپاکستان کو جو امیدیں تھیں وہ پوری ہونے کی بجائے الٹا مسائل میں اضافہ ہوا، افغان شہریوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ پاکستانی حکام کےلئے غیر معمولی مشکلات اور بوجھ کا باعث بنا۔اقوام متحدہ کے قوائد کے تحت بھی ان افغان شہریوں کا ریکارڈ رکھنا ضروری ہے۔پاکستان میں صرف اندراج شدہ افغان مہاجرین کی تعداد تیرہ لاکھ بنتی ہے جبکہ غیر قانونی مقیم تعداد اس کے علاوہ ہے۔ پاکستان چار دہائیوں سے افغان مہاجرین کے وقار، عزت اور تحفظ کے اعلیٰ ترین معیار کےساتھ میزبانی کررہا ہے لیکن صلہ میں الزام تراشی کے سوا کچھ نہیں،غنی حکومت بھی یہی حرکتیں کر رہی تھی اور اب طالبان بھی یہی حرکتیں کر رہے ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی پناہ گزینوں کو قانونی دستاویزات کے بغیر میزبان ملک میں گھومنے کی اجازت نہیں ہوتی اورملکی قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو گرفتار کرکے ان کے آبائی ملک بھیج دیا جاتا ہے،لیکن جب پاکستان کا معاملہ آتا ہے توسب کی چرخی الٹا گھومنے لگتی ہے اور غیر قانونی مطالبات شروع کر دیئے جاتے ہیں جو انتہائی افسوسناک امر ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے