آئی ایم ایف 1.1ارب ڈالر نے قرضے کے حصول کے لئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے روپے کی قدر میںمزید کمی ، اداروں کی نجکاری، مزید انکم ٹیکس کا نفاذ ، بجلی، گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ کریں، سیل ٹیکس پر سب سڈی ختم کریں، 300یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں پر زیادہ سے زیادہ قیمت بڑھانی چاہئے۔اور مسلح افواج کے بجٹ میں 600ارب روپے کمی کردیں ۔ بعض تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ آئی ایم ایف اس بات پر بھی بضد ہے کہ مزید قرضے کے حصول کے لئے سرکاری ملازمین کے تنخواہوں میں اضافہ نہ کیا جائے اور پنشن کوبھی ختم کیا جائے۔ اس سے پہلے ہمارے سابق حکومتوں نے اپنے وسائل پیدا کرنے اور انکو بڑھانے کے بجائے قومی اداروں کو Mortgage یعنی گروی کیا ہے ۔جس میں حکومت نے کراچی کا جناح بین الاقوامی ائر پو رٹ2013 میں 182ارب روپے کے عوص گروی رکھ دیا ہے۔ دسمبر2015 میں دوبارہ کراچی ائر پورٹ کے نام پر مزید114ارب روپے اورفر وری 2016 میں پھرکراچی ائر پو رٹ گروی رکھ کرمزید 80.4ارب روپے قرض لئے گئے۔ ساتھ ساتھ قرضوں کے حصول کے لئے مو ٹر وے اور قومی شاہراہوں کو بھی گروی رکھ دیا گیا۔2014 میںحکومت نے حافظ آباد موٹر وے کو ایک ارب ڈالر کے عوض گروی کیا ۔اسی سال 2014 میں حکومت نے فیصل آباد پنڈی بھٹیاںمو ٹر وے کو49.5ارب روپے کے عوض گروی کیا ۔حکومت پہلے پشاور لاہور موٹر وے، فیصل آباد پنڈی بھٹیاں مو ٹر وے، اسلام آباد پشاور موٹر وے اور اسلام آباد لاہور موٹر وے کو گروی رکھ چکے ہیں۔اسی طرح 2006میں حکومت نے نیشنل ہائی وے کو بھی گروی رکھ چکے ہیں۔ جس میں مری مظفر آباد ڈبل کیرج وے، جیکب آباد بائی پاس ، ڈی جی خان راجن پور ہائی وے اور اوکاڑہ بائی پاس گر وی کر چکے ہیں۔پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان گروی کئے گئے ہیں۔ اگر ہم نجکاری کی ما ضی پر نظر ڈالیں تو سال 1991 سے سال 2013 تک 167 ادروں کی نج کاری تقریباً 467 ارب روپے میں کی گئی ہے۔ ما ہر اقتصادیات رﺅف احمد کا کہنا ہے کہ یہ ادارے 43 چند کم قیمت پر بیچے گئے۔ جہاں تک نج کاری کے پیسوں کا تعلق ہے تو طے شدہ قانون اور ضابطوں کے مطابق ان رقم میں 90 فی صد رقم خا رجہ قرضوں کی ادائیگی پر اور 10 فی صد عام لوگوں کی فلا ح و بہبود پر خر چ ہونی چاہئے مگر نہ تو یہ رقم خارجہ قرضوں کی ادائیگی پر خرچ کئے گئے اور نہ عام لوگوں کی سماجی اقتصادی اشاروںمیں کوئی تبدیلی آئی بلکہ انکے بر عکس غربت اور خارجہ قرضے مزیدبڑھ گئے۔ عمران خان کے ساڑھے 3 سالہ دور حکومت میں پاکستان کا قرضہ 29ہزار ارب سے 54 ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا .اورموجودہ حکومت اس میں مزید اضافہ کرے گا۔ جہاں تک قرضوں کا تعلق ہے تو یہ ہمارے کل ملکی پیداوار کا 98 فیصد ہے جو کسی ملک کے پیداوار کا 50 فیصد ہونا چاہئے۔ ایشیاءاور عالمی بینک کے مطابق پاکستا ن میں 70 فی صد یعنی 13کروڑ لوگ غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبو ر ہیں۔ڈاکٹر حبیب احمد کا کہنا ہے کہ نج کاری سے مُثبت رحجان کے بجائے منفی اثر پڑا اور عام چیزوں کی قیمتیں کم ہونے کے بجائے بڑھ گئی۔ چینی، بجلی پیدا کرنے والے نجی کمپنیوں ، سیمنٹ، گندم ، ادویات، سریا ، ادویات کے منافلی گروپ اور مافیازوجود میں آئے اور وہ اپنی من مانی کرکے قیمتیں بڑھا رہے ہیں۔ اور حکومت انکے سامنے بے بس ہے ۔ کاروبار ٹھپ ،نوکریاں اور روزگار نہیں اور آئی ایم ایف پاکستان سے مزید ٹیکس، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے، سرکاری ملازمین کی تنخواہ نہ بڑھانے اور پنشن ختم کرنے کی ڈیکٹیشن دے رہے ہیں ۔ جس کی پاکستانیوں میں کوئی سقت نہیں۔70فی صد عوام پہلے مہنگائی کی وجہ سے علاج معالجہ چھوڑ چکے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں اس وقت عوام سب سے زیادہ مہنگائی برداشت کر رہے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ کرپشن کیسز میں جن سیاست دانوں ، سابقہ فوجی ، سول بیوروکریٹس اور مختلف قسم کے مافیاز پر جو کرپشن ثابت ہو چکی ہے ان سے وصولی کی جائے ۔علاوہ ازیں پاکستان کے نوجوانوں کو سمندر پار بھیج کر اربوں ڈالر زرمبادلہ کمایا جا ئے ۔ اگر آئی ایم ایف کے ڈیکٹیشن پر روپے کی قدر میں مزید کمی کی گئی تو اس سے پاکستا نی قرضہ مزید بڑھ جائے اور مہنگا ئی کا مزید طوفان آجائے گا۔ جہاں تک ٹیکسز کی بات ہے تو اس وقت ٹیکس تو ہر پاکستانی 17 فی صد جی ایس ٹی کی شکل میں دے رہے ہیں ۔ غریبوں پر ٹیکسوں کے بجائے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔ اداروں کی نجکاری کے بجائے اداروں کو مظبوط کیا جائے تاکہ مزید منافلی گروپ اور مافیا کا تدارک کیا جائے ۔ اچھی حکمرانی پر توجہ دینی چاہئے۔اداروں کی نجکاری کے بجائے اچھی حکمرانی کو فروغ دینا چاہئے ۔ وینزویلا کے ہوگو شاویز کی مثال ہمارے سامنے ہے انہوں نے پرائیویٹائز اداروں کو دوبارہ نیشنلائز کیا اور اسی طرح انہوں نے اس اداروں کو چھ چند زیادہ منافع بخش بنا دیا۔
کالم
کیا اداروں کی نجکاری سے کوئی فائدہ ہوگا؟
- by Daily Pakistan
- فروری 9, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 775 Views
- 2 سال ago