کالم

چیئر مین نیب اِدھربھی نظر ڈالیں

یوں تو خادم پاکستان شہباز شریف کی شہرت اوراہمیت منصف مزاج حکمران کی ہے مگر بعض معاملات میں وہ بے خبر ضرور ہیں۔ان کی بے خبری کی ہی بدولت کرپٹ سرکاری افسران آج بھی موجیں مار رہے ہیں اور ملکی خزانے کو گھن کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ان کی بے خبری مگر اس کرپشن کا مداوا نہیں کر سکتی کیونکہ حکمرانوں کو عوام اور سرکاری خزانے ان دونوں سے واقف رہنا بھی ضروری ٹھہرا۔آج کل ترقیاتی منصوبوں کے لئے جاری ہوئے سرکاری فنڈز اور ان میں ہوئی مالی بدعنوانی سنجیدہ اور فہمیدہ لوگوں کو حیرت میں مبتلا کئے ہوئے ہے ۔ملک بھر میں حکومت،اتحادیوں اور اپوزیشن کے دو سو سے زائد ایم این ایز کو ترقیاتی منصوبوں کے لیے دوکھرب کے خطیر فنڈز کے اجرا پر سوالیہ نشان لگے ہیں۔ہمارے اندرونی ذرائع کے مطابق فی رکن قومی اسمبلی کو حکومت نے ایک ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز دیئے ہیں اور یہ دو اقساط میں دیئے گئے ہیں۔پہلے فی ایم این اے کو پچاس کروڑ اور پھر بعد میں بھی پچاس کروڑ روپے ترقیاتی کاموں کے نام پر دیئے گئے ہیں۔یہ فنڈز پاکستان پاک ورکس ڈیپارٹمنٹ (PWD) کو جاری کئے گئے ہیں ۔ پی ڈبلیو ڈی کے افسران نے جوکام تقریبا 80 فیصد مکمل ہو چکے ہیں،انہی کے ضمن میں مبینہ ملی بھگت کر کے اپنے من پسند ٹھیکیداروں کو ادائیگیاں بھی کر دی ہیں۔
پندرہ سے بیس دیہاتوں پر مشتمل گاں کی یونین کونسلوں کو ترقیاتی کاموں کی مد میں دو سے چارکروڑ روپے فراہم کئے گئے ہیں اور ان میں بھی میگا کرپشن کی گئی ہے۔ان ترقیاتی منصوبوں میں سرکاری افسران نے کاریگری یا کرشمہ سازی یہ کی کہ متعدد منصوبوں کو یکجا کر کے ایک ہی ٹینڈر جاری کر دیا تاکہ کرپشن کرنے میں آسانی رہے۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہر منصوبے کی الگ الگ تفصیل جاری کی جاتی کہ فلاں دیہات یا فلاں یونین کونسل کے فلانے گاں میں یہ یہ ترقیاتی کام ہوئے ہیں۔اب یہ ہو نہیں سکتا کہ کوئی ایکسیئن یا ایس ڈی او پورے لاہور کے ترقیاتی کا موں کو ایک ہی جگہ جمع کر کے بل بنادے۔ قانونی اور سرکاری طور پر ایسا نہیں ہو سکتا۔ قانونی طور پرآپ کو تخصیص کرنی پڑے گی کہ اچھرہ میں اتنے کے ترقیاتی کام،کلمہ چوک،شملہ پہاڑی،بتی چوک،یادگار یا شادمان میں یہ یہ ترقیاتی کام کروائے گئے ہیں ۔حیرت ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف ،چیئرمین نیب اوردیگر ذمہ دار حکام سرکاری خزانے کی ان بے ضابطگیوں پرکیوں خاموش ہیں یا کہ یہ کہانیاں ان تک پہنچی نہیں ہیں ؟ اگر انہیں یہ رپورٹیں موصول نہیں ہوئی تو کیوں؟ وفاقی حکومت، ایف آئی اے،نیب اور دوسرے تحقیقاتی اداروں کو چاہئے کہ وہ اس کرپشن کا نوٹس لیں، تحقیقات کریں اور ذمہ داروں کیخلاف کڑی کارروائی کریں ۔
ہمارے ذرائع کے مطابق(پی ڈبلیو ڈی)کے افسران، ایگزیکٹو انجینئرز،ایس ڈی اوز ، سب انجینئرز وغیرہ نے پہلے سے مکمل منصوبوں پر تختیاں لگوا کر کاغذی کارروائی مکمل کی ہے اور پھر اپنے منظور نظر ٹھیکیداروں کو ادائیگیاں بھی کی ہیں۔ لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد، گجرات ، شیخوپورہ، ملتان ، بہاولپور ، راولپنڈی اور دیگر اضلاع سمیت تمام ڈویژنوں کے افسران قومی خزانے سے خطیر رقم ہڑپ کر چکے ہیں۔اور پی ڈبلیو ڈی کے سرکاری ملازمین اور افسران ترقیاتی سکیموں میں بدعنوانی اور بے ضابطگیوں کا صائب اور درست جواب دینے سے بھی قاصر ہیں۔ خصوصی طور پر سیالکوٹ، نارووال ، منڈی بہاالدین اور حافظ آباد میں ترقیاتی کاموں کے سرکاری ٹینڈرز جاری کرنے پر بھی من مانیاں اور اقربا پروری کی جاتی ہے ۔ ٹینڈرز جاری کرنے سے پہلے اپنے چہیتے کنٹریکٹروں سے کمیشن کے نام پر وصولی کی جاتی ہے اور پھر ہر کنڈیکٹر کو اس کا پسندیدہ ٹھیکہ الاٹ کر دیا جاتا ہے۔چیف انجینئر لاہور عتیق احمد سے جب رابطہ کیا گیا تو وہ بھی اپنے ساتھی سرکاری افسران کا دفاع کرنے میں ناکام رہے ، انہوں نے آئیں بائیں اور شائیں کی، بات کو ٹالنے کے انداز میں کہا کہ شاید کہیں ایسا ہوا ہو ۔ وہ کوئی معقول اور موثر جواب نہیں دے سکے۔
نئے چیئرمین نیب ریٹائر لیفٹیننٹ جنرل نذیر احمد کو چاہئے کہ پی ڈبلیو ڈی کی کرپشن پر بھی توجہ دےں اور اپنی عقابی نگاہ ڈالیں۔بقول مرزا رفیع سودا:
اوروں کی طرف گل پھینکے ہے بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی !
مسلم لیگ کے کارکنان اور دیگر عوام حیران ہوتے ہیں کہ شہباز شریف اتنے متحرک اور فعال ہیں،وہ دن رات عوامی فلاح و بہبود اور سرکاری خزانہ بچانے میں لگے رہتے ہیں لیکن انہیں ترقیاتی کاموں میں ہونے والی کرپشن کیوں نظر نہیں آتی۔اپوزیشن ارکان تو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ایک طرف حکومت کے پاس دو صوبوں کے الیکشن کےلئے محض20ارب روپے بھی نہیں جبکہ دوسری جانب ایم این ایز کو دینے کےلئے2سو ارب روپے بھی موجود ہیں ۔ کیا یہ سیاسی رشوت ہے ؟ یا پھر الیکشن جیتنے کے لئے سرکاری خزانے سے کی گئی مالی بد عنوانی؟ یا یہ سیاسی اور انتخابی اقربا پروری ہے ؟ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ہونا تو یہ چاہئے کہ چیئرمین نیب ریٹائر لیفٹیننٹ جنرل نذیر احمد سیاسی تفریق سے بالاتر ہو کر پی ڈبلیو ڈی میں ہونے والی مالی بدعنوانی کا نوٹس لیں اور اس کی شفاف اور غیر جانبدارانہ انکوائری کرائیں ۔ عادلانہ اور منصفانہ تحقیقات کے بعد جو بھی قومی خزانہ لوٹنے میں سرکاری ملازمین ملوث ہوں ، ان کیخلاف مقدمات درج کرائے جائیں اور ان سے ریکوری بھی کی جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے