کالم

مشکل ضرور ہے مگر نا ممکن نہیں

اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ نعرے ایجاد کرنے اور ہجوم اکھٹا کرنے اور عوام کے من پسندسیاسی اصطلاحات وضع کرنے اور ایک دوسرے کو ترکی بہ ترکی جواب دینے میں ہم دنیا میں یکتائے روزگار ہیںسیاست میں ایسے ایسے عنوانات تخلیق کرتے ہیں اور ایک خاص پلیٹ فارم کے تحت عوام کو جمع کرتے ہیں کہ اللہ کی پناہ ملکی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی دس سالہ دور میںبھی سیاست دان مرغ لڑائی کی طرح ایک دوسرے کو پٹختے رہے اور ایک بیمار اور فالج ذدہ شخص جو صحیح طرح بول بھی نہیں سکتا تھااور نہ اس کی زبان اس کی امریکی خاتون سیکریٹری اور اس کی والدہ کے علاوہ کوئی سمجھ سکتا تھا اس نے اسمبلیاں بھی توڑی اور ملک کے سیاہ وسفید پر قابض رہا مگر ہم اسے برداشت کیااور مارشل لاءلگا تو اس چھتری کے نیچے بھی بکاو¿لیڈرزمفادات کے حصول کیلئے ایک دوسر ے کو نیچا دکھانے اور خود کو بکنے کیلئے پیش کرنے میں سبقت کرتے رہے قومی سوچ ، بامقصد نظریہ، قومی ترقی پلاننگ اور صحیح حکمت عملی نہ ہونے کے نتیجے میں سامراجی غلامی میں ہی عافیت محسوس کرتے اور قومی مفادات کو اس طرح بیچنے کے لئے تیار ہوتے جیسے حلوائی اپنی دکان پر مٹھائی بیچتا ہے آج بھی ہجوم اکھٹا کرنے والوںکا المیہ بھی یہی ہے کہ ان کے ہاں سوچ ،نظریہ اور قومی مفادات کی بجائے ،متعصب سوچ اور ذاتی وگروہی مفادات کے ساتھ بیرونی آقاو¿ں کے مفادات عزیز ہیں جس کے واضح اشارے گاہے بگاہے سیاسی اکابرین کے بیانات کی روشنی میں ملتے رہتے ہیں۔پہلے انفرادی غلامی ہوتی تھی اور آج کل اجتماعی غلامی کا دور دورہ ہے، پہلے ایک فرد آقا اور دوسرا غلام ہوتا تھا اسی طرح غلاموں اور لونڈیوں کی خریدد وفروخت ہوتی تھی اس مقصد کیلئے منڈی لگتی تھی اور غلاموں کی بولی لگتی تھی مگر آج کل پورے ملک کے ملک بلکہ ممالک اور خطوں کو غلام بنایا جاتا ہے اور یہ کام عالمی استعمار بڑی چالاکی کے ساتھ کر رہا ہے ۔ آئی ایم ایف اوردیگربین الاقوامی ممالک کے قرضے غلامی پھیلانے کے حربے ہیں۔ ایک آڑھتی جب کسان کو ادھار بیج دیتا ہے اور کھاد ڈیلر اور کیمیاوی ادویات کے بیوپاریوں کا کردار بھی غلامی کو فروغ دیاتا ہے اورنچلے درجے کے کھلم کھلا استحصال سے لے کر ڈھکے چھپے استحصال تک یہ سب غلامی کی شکلیں ہیں۔غلامی کے لغوی اور اصطلاحی معنوں کے مطابق کسی کی شخصی آزادی مسخ کر کے ا±سے اپنی ملکیت اور قابو میں اس نیت سے رکھنا کہ ان کا ناجائز ، غیر قانونی ،استعمال کیا جا سکے اور بوقت ضرورت انہیں کسی کے حوالے کر دیا جائے یا ساری عمر اسی حالت میں اپنے پاس رکھا اور استعمال کیا جاسکے۔ یعنی انسانوں کو دوسری اشیاءکی طرح سمجھا اور برتا جائے اور یہ سب کرنے کے لئے تشدد ،طاقت ‘ خوف اور دباﺅ استعمال کیا جائے ۔ انسانی سمگلنگ ، جبرمشقت کروانی ، قرضوں میں دبے لوگوں کے استحصال کو غلامی کی تعریف میں شامل کیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں غلام ابنِ غلام ابن ِ غلام جاگیرداروں کی جاگیرداری چل ہی اسی وجہ سے رہی ہے۔ صبح سویرے کچرا چننے والے بچے ہوٹلوں میں کام کرتے گالیاں کھانے والے قوم کے نونہال ، سڑکوں پر بھیک مانگنے والے فرزندان قوم ، بڑے لوگوں کے گھروں میں کام کرنے والے مستقبل کے معمار ، فیکٹریوں ملوں میں کام کرنے والے مفلس مزدور یہ سب غلامی کی جیتی جاگتی مثالیں ہی۔ ڈیموکریسی ہو، یا ڈکٹیٹرشپ ہو، یا کمیونزم ہو یا سوشلزم ہو، یا بادشاہت ہو۔۔۔ عوام کو، یا ملک کو اس سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ عوام اور ملک کو ترقی، عوام کی خوشحالی چاہیے۔ عوام کو روزگار، خوشحالی اور سکیورٹی چاہیے۔‘گزشتہ ستر سالوں کی تاریخ گواہ ہے وطن عزیزمیں حقیقی سیاسی قیادت موجود نہیں رہی ابتدا ءسے لے کر آج تک اقتدار پربراجمان عناصر جمہوریت ،ملک و قوم کا نام تو لیتے رہے لیکن ملک و قوم کی تعریف ان کے ہاںذاتی جاگیر اورخاندان و گروہ ہوتا تھاقومی سیاست کے نام پرذاتی مفادات کا حصو ل اولین ترجیح ہوتی تھی اور آج بھی یہی حال ہے ۔یہاں ہر اچھے عمل کو سبوتاژ کرنابھی ایک روایت ہے اوریہ ایک بھی حقیقت ہے کہ یہاں آئین میں ترمیمات ہوتی رہتی ہیں اور بل وغیرہ پاس کئے جاتے ہیں لیکن کیا ان آئینی ترامیم کے نتیجے میں ملک میں موجود سامراجی استحصالی نظام تبدیل تبدیل ہوتا ہے؟ اور کیا ان ترمیمات کے ذریعے جاگیرداریت اور سرمایہ داریت کو کوئی خطرہ درپیش ہوتا ہے ؟یقینا اس کا جواب نفی میں ہے اور کیاان آئینی ترامیم کے نتیجے میں مزدوروںکے معیار زندگی میں کوئی فرق آیااورغریبوں کی غربت اور امیروں کی کی امارت میںکوئی کمی ہوئی ہوئی ہے اور کیا طبقاتی نظام کا خاتمہ ہوا ہے؟ اور کیا ججوں کے تقرر کے جھگڑے چکانے میں عد ل و انصاف کا بول بالا ہوااور کیاقوم کے حقیقی مجرم کیفر کردار کو پہنچے ؟ اور کیادہشت گردی اور بنیاد پرستی ختم ہوئی یامذہبی و سیاسی فرقہ واریت کے جراثیموںکا خاتمہ ہوا؟۔بازار سیاست کے تاجروںکو ذرا یہ سوچنا چاہیئے تھا کہ اگر بھولے بھالے ،معصوم اور ستم ذدہ عوام کو ان لولی پاپ ٹائپ ترامیموں سے (جن سے آکثریت عوام شاید ہی واقف ہوں) اورمحض نعروں سے کچھ دیر کےلئے بہلایا جائے تو اس سے ان کے پیٹ کے کون سے کیڑے بلبلاتے ہیں؟بات یہ ہے کہ ہمارے ہاںقومی مفادات وسوچ کی حامل باکردار ،باصلاحیت قومی قیادت کا فقدان ہے کیوںکہ کسی بھی قوم کی حقیقی اور خیر خواہ قیادت وہی ہوتی ہے جس کے پاس قومی وحدت کا نظریہ ،قومی مسائل کا فہم وادراک اور ان کے حل کرنے کا شعور واہلیت ہو ،قوم کے سامنے جوابدہی کا احساس ہو ۔ہمارے حکمران اور لیڈرز ہم میں سے نہیں وہ امریکی سامراج کے وفادار اور اس کو جوابدہ ہیں آج حزب اختلاف ہو یا حزب اقتدار ،سیاسی رہنماہوں یا مذہبی کارڈ کھیلنے والے سب کو اپنے اپنے مفادات کا پاس ہے قوم کو ڈبونے میں سب مشترکہ کردار ادا کر رہے ہیں ،اس سیاست گردی کا ایک ہی علاج ہے کہ اس روگی نظام کو تبدیل کر کے قومی سوچ و نظریہ کے مطابق صحت مند نظام قائم کیا جائے لیکن یہ سب کچھ محض نعروں سے نہیں ہوتا اس کیلئے عمل کی ضرورت ہے جو مشکل ضرور ہے مگر نا ممکن نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے