آج ہمیں دین کی روح سے واقفیت نہیں ہے جو شخص اعلانیہ دو نمبر کی اشیاءفروخت کرتا ہو اور بے ایمانی اور دھوکہ اس کا شیوہ ہو اس کی نیکی کی کیا حیثیت ہوگی؟۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستا ن کے ننانوے فیصد عوام کا بنیادی مسئلہ روٹی کا ہے،روٹی کے حصول کیلئے پاکستان کے غریب عوام مارے مارے پھیر رہے ہیں اور نوالے کی تلاش میں ہاتھ پیر مار رہے ہیں اور نوالہ ہے کہ ان کے ہاتھ نہیں آتا ہے ۔ پاکستانی نظام کے سیاسی مسخروں نے عوام کو مہنگائی خوف اور بھوک کے تحفے کے اور کچھ نہیں دیا ہے جب بھی انہیں ضرورت ہوتی ہے وہ عوام کے سڑکوں پر نکلنے کی بات ضرور کرتے ہیں لیکن ان کے پاس عوام کے بنیادی مسائل کا کوئی حل نہیں ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انفرادی طور پر قوم کاہر فرد ملک کیلئے قربانی دیتا ہے اور ملک کی ترقی کیلئے نیک خواہشات کی تمنا رکھتا ہے لیکن کیا کیا جائے نظام کا اور نظام کو چلانےوالوں کا کہ ہمیشہ وہ آڑے آجاتے ہیں اور عوام کی خواہشات کو دبایاتا ہے اور ان کےارمانوں کا خون کیاتا ہے اور ان کی تمناﺅں کو مٹایاتا ہے فاسد نظام نے ہر فرد کوآلودہ کردیا ہے بددیانتی اس کی خمیر میںشامل ہوگئی ہے بھوک سے قوم کا تعلق جڑ گیا ہے اور بد دیانتی ہمارا تعارف بن گیاہے حالانکہ اس ملک سچائی پھیلانے اور عدل اور انصاف پر مبنی نظام اور اعلیٰ اخلاق کو بلند کرنے کیلئے بنا تھا لیکن یہاں فرقہ واریت ، کرپشن اور مہنگائی نافذ کی گئی ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا یہ باطل فرقوں کی نرسری ہے اور ہرفرقہ اصل اسلام کا ٹھیکہ دار ہے ۔ چونکہ مسلطہ نظام سرمایہ پرستی، نفس پرستی اور جاہ پرستی کے جراثیموں سے آلودہ ہے اور عوام کے ذہنوں کو تالے لگ گئے ہیں اس لئے ہمارا معاشرہ حیوانی گروہیت کا منظرپیش کر رہاہے ہماری سیاست، معیشت اور تجارت مفلوج ہیں مادہ پرستی ہر شخص کی خمیر میں شامل ہوگئی ہے دوسروں کو دھوکہ دیناہر شخص کا نصب العین بن گیا ہے اور جھوٹ بولنے کی رواےت عام ہوگئی ہے ہر طرف دھونس اور دھاندلی ہے اور اخلاقی بگاڑ کا عالم ہے اور جھوٹ کو فروغ مل رہاہے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق جھوٹ بولا جارہاہے بڑے لوگ جھوٹ بھی بڑے پیمانے پر بولتے ہیں ِاوراور جو چھوٹے حیثیت کے حامل ہیں ان کے جھوٹ کا پیمانہ بھی ذرا چھوٹا ہوتا ہے ہمارے سیاستدان جن میں خواتین اور حضرات سبھی شامل ہیں جھوٹ بولتے ہیں اور سچ یہ ہے کہ وہ اس جھوٹ کو ضرورت اور وقت کا تقاضا قرار دیتے ہیں ۔یہ امر لائق غور ہے کہ مذہبی کارڈ استعمال کرنے والے عناصر سرمایہ دارانہ نظام کو مذہب کا محافظ سمجھتے ہیں اور مقدس روایات اور مذہبی اقدار کو اپنے مذموم عزائم کیلئے استعمال کرتے ہیں اور فاسد نظام کا ایک ناکارہ پرزہ بن کر وہ جادووہ جو سر چڑھ کر بولے کے مصداق بنے ہوئے ہیں اور بڑی چابکدستی کے ساتھ عوام کو دھوکہ دینے پینترے بدلتے ہیں اور مکر اور فریب کا مظاہرہ کرتے ہیں البتہ بیانات باقاعدگی سے داغتے ہیں ان کی وجہ سے اور اس قبیل کے دیگر سیاستدانوں کی وجہ سے ملک فرقہ واریت اور ہیروئن کلچر کے لپیٹ میں ہے دینی فلسفے کا پھیلاﺅ رک گیا ہے مغربی تہذیب وتمدن کوفروغ مل رہا ہے اور خود غرض سیاستدانوں کی گمراہانہ ذہنیت نے پوری قوم کو جہنم کے گڑھے میں ڈالدیا ہے۔گزشتہ ستر برسوں میں پاکستان پر مسلط نظام نے داﺅ وپیچ تو بہت کھائے ہیں اور روپ بدلنے میں کافی شہرت حاصل کی ہے اگر چہ اس کا حقیقی چہرہ چھپا ہوا ہے اور طاقت کی ڈوری جس کے ہاتھ میں ہوتی ہے وہ کبھی سامنے نہیں آتا ہے ہم نے اس نظام کو عسکری وردی ہی میں دیکھا ہے اس کے علاوہ یہ نظام کبھی واسکٹ اور شیروانی کی نمائش کرتا ہے اور کبھی کوٹ پینٹ ی کی صورت میں سامنے آتا ہے جب بھی یہ نظام اپنا رنگ بدلتا ہے تو غریب آدمی اگر چہ خوشی سے شادیانے بجاتا ہے اور تالیاں پیٹ کر اپنے سرخ کرتا ہے مگر اسکے چہرے کی سرخی زائل ہوتی جاتی ہے اور اسکے چہرے کی زردی میں اور اضافہ ہوتا جاتا ہے ۔دیکھا جائے تو ہمارے ملک میں مذہب اور مسلک کے نام پر ایک دوسرے کو بم کا نشانہ بنانے والے ہو ا،افسر شاہی قبضہ گروپ ہو ےا کسان اور مزدور کا خون چوسنے والے جاگیر دار اور سرمایہ دار ہواور ےا قوم پرستی کے نام پر ایک دوسرے کو تہ و تیغ کرنے والے ہوان سب کے مفادات عوام پر ظلم کرنے سے وابستہ ہیں اور یہ قومی مفادات سے عاری ہیں اوریہ سب الا ماشاءاللہ سامراجیت کے آلہ کار ہیں یہ تو نہ دور کے تقاضوں سے آگاہ ہیں اور نہ اورنہ ان کو اپنے شاندار ماضی کا ادراک ہے اور ان سے بہتر مستقبل کی توقع رکھنا بھی حماقت ہے کیونکہ نہ کا کوئی نصب العین ہے اور نہ انکے پاس کوئی حکمت عملی ہے بلکہ یہ سامراج کی چھتری کے نیچے عوام کا استحصال کرنے میں مصروف ہیں اور مال جمع کرنا اور قومی خزانہ پر ہاتھ صاف کرنا ان کی سیاست کا وطیرہ ہے اور یہی ان کا مشن ہے جس پر سب گامزن ہیں ، اب عام آدمی بھی سمجھنے لگ گیا ہے کہ یہی فرعونی سیاست کی جھلک ہے جو ایکسویں صدی میں دیکھی جاسکتی ہے۔وطن عزیز میں قدرت نے کسی چیز کی کمی نہیں چھوڑی ہے یہاں بہتے ہوئے دریا، سرسبز جنگلات، زرخیز اراضی اور زمین میں چھپے معدنیات اور جواہرات کی کمی نہیں ہے لیکن ذاتی مفادات اورر ناقص حکمت عملیوں اور کمیشن کے عوض کئے ہوئے معاہدوں نے پوری قوم کو بھکاری بنایا ہوا ہے ورلڈبینک اور آئی ایم ایف کے قرضہ جات نے ملک کی تباہی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے اور مسائل پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کا قبضہ ہے اور سچی بات یہ ہے کہ اس دور کے بت یہ ملٹی نیشل کمپنیاں ہیں عام آدمی سڑک پر اس لیئے نہیں نکلتاہے کہ اس کے مسائل کا حل کسی کے پاس نہیں ہے اور انہیں اپنے آنے والے نسلوں کا مستقبل بھی تاریک نظر آرہا ہے ۔دیس کے عوام مشینی دور میں مشین کی گراری کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔مہنگائی کا عفریت ، ٹیکسوں کا ظالمانہ نفاذ،غیرملکی سرمایہ کاری کے نام پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کا عمل دخل ،نجکاری کے نام پر قومی دولت کو ہڑپ کرنے کے منصوبے، برآمدات کو بڑھانے کے نام پر ملکی کرنسی کی قیمت کم کرنے کے اعلانات ،اور عالمی اداروں سے قرض لے کر ملک چلانے کے طور وطریقے عوام کیلئے وبال جان ہیں ۔ آخر یہ دیس کا المیہ کب تک ؟
کالم
عوام کااستحصال کب تک؟
- by Daily Pakistan
- اپریل 18, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 545 Views
- 2 سال ago