ایک وقت تھا جب مساجدکو مسلمانوںکے عظیم روحانی مراکزکا درجہ حاصل تھاپانچ وقت باجماعت نماز اداکرنے کا بھی فلسفہ یہی ہے کہ ایک دوسرے کے مسائل سے آگاہی ہوتی رہے اسکے تناظرمیں کچھ تجاویزہیں جن کی روشنی میں مسلمانوں کو اب مساجد میں کچھ تبدیلی کرنا ناگزیر ہوگیاہے ضروری ہے کہ مساجد کو صرف نماز پڑھنے کی جگہ ہی نہ بنائیں بلکہ اسلامی کمیونٹی سنٹر کی طرز پرہو* وہاں غریبوں کے کھانے کا انتظام ہو۔ مساجد کو صرف نماز پڑھنے کی جگہ ہی نہ بنائیں بلکہ اسلامی کمیونٹی سنٹر کی طرز پرتشکیل دیاجائے ترکی میں تو مساجدمیں بچوںکےلئے جھولے اور پالنے لگادئےے گئے ہیں تاکہ بچے سکون سے کھیلتے رہیں اور والدین عبادات کرتے رہیں* وہاں غریبوں کے کھانے کا انتظام ہو۔ مساجدمیںڈپریشن میں الجھے لوگوں کی کاﺅنسلنگ ہو۔*مسلمانوں کے خاندانی جھگڑوں کو سلجھانے کا انتظام ہو۔* مستحقین کی مناسب تحقیق کے بعداجتماعی و انفرادی طور پر مدد کی جا سکے۔* اپنے گھروں کے فالتو سامان کو نادار افراد کیلئے عطیہ کرنے کی غرض سے مساجد کا ایک حصہ مخصوص کردیاجائے کچھ شہروںمیں دیوارِ مہربانی یا فوڈبکس کااہتمام کیا گیاہے جس سے ضرورت مندوںکی کفالت ان کی عزت ِ نفس مجروح ہوئے بغیرہورہی ہے یہ سلسلہ مساجدمیں شروع کیاجانا ضروری ہے اسکے لئے لازمی ہے کہ مساجدکشادہ بنائی جائیں پاکستان میں تو ہرمحلے کے اندر کئی کئی ڈیڑھ اینٹ کی مساجد بنی ہوئی ہیں چھوٹی چھوٹی مساجدبنانے کی حوصلہ کسنی کی جانی چاہےے اس ضمن میں حکومت کو بھی کردار اداکرناہوگا کہ رجسٹریشن کے بغیرکوئی نئی مسجد بنانے کی اجازت نہ دی جائے اس وقت آپ مشاہدہ کریں تو ایک ایک کلومیٹر کے علاقہ میں درجنوںمساجد بنی ہوئی ہیں اور اس میں متواتراضافہ ہورہاہے جس کی وجہ سے نہ صرف نمازی تقسیم ہوگئے ہیں بلکہ مزاج اور ذہنوں میں بھی دوریاںبڑھتی جارہی ہیں بیشترچھوٹی چھوٹی مساجدجہاں چند صفیں نمازیوںپر مشتمل ہوتی ہیں وہاںبھی جمعة المبارک پڑھایا جاتاہے جو اسلامی روح کے منافی ہے کسی قسم کا فتویٰ لگانے سے بیشتر اسلامی فلسفہ حیات کا ادراک ضروری ہے کہ اسلام ہم سے بنیادی طورپر کیا تقاضا کرتاہے اور ہمارا طرز ِ عمل کیاہے۔ مساجدمیں* آپس میں رشتے ناطے کرنے کیلئے ضروری واقفیت کا موقع ملے۔* نکاح کا بندوبست سادگی کیساتھ مساجد میں کیے جانے کو ترجیح دی جائے۔* قدرتی آفات سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کیلئے اجتماعی کوششوں کا آغاز مساجد سے ہو۔ کیونکہ صدقات و خیرات کرنے میں ہم مسلمانوں کا کوئی ثانی نہیں محلے میں ایک دوسرے سے واقفیت کی بنیادپر صرف مستحقین کی ہی مددہونے می آسانی ہوگی* بڑی جامعہ مساجدسے ملحق مدارس میں دینی تعلیم کیساتھ دنیاوی تعلیم کا بھی اہتمام ہو ۔ تاکہ ہم دور ِحاضر کے چیلنجزکا مقابلہ کرسکیں ایک اور تجویز بڑی مستحسن ہے کہ مدارس کے طلبہ کو ووکیشنل ابجوکیشن کی طرف راغب کیاجائے تاکہ وہ کسی بھی انداز میں کسی سے کمترنہ ہوں رزق ِ حلال کمائیں مستقبل میں ان کا انحصار صدقہ و زکوة،چندے اور دوسروں کی مالی امدادپر نہ ہوبلکہ وہ معا شرے کے باعزت شہری بن کر ملکی ترقی کا فعال حصہ بنیں* ہماری مساجد میں ایک شاندار لائبریری ہو، جہاں پر غیرمتنازعہ مکمل اسلامی و عصری کتابیں مطالعہ کےلئے دستیاب ہوں۔ خدارا اپنے اندر تعلیم سے محبت کرنےوالے لوگ پیدا کریں۔ یعنی مساجد کو صرف عبادات تک محدود نہ کیا جائے بلکہ سماجی زندگی کاایک لازمی جزبنایا جائے ۔کوئی تجویز نئی نہیں ہے تمام کاموں کی نظیر 1400 سال پہلے دور نبوی ﷺ کے مدینہ میں ہوتے تھے۔جیسے ہی ہم نے ان شاندار روایات کو چھوڑا ہم بربادی کی طرف بڑھتے چلے گئے … اور چلے ہی جا رہے ہیں ۔
کالم
بربادی سے نکلنے کاراستہ
- by Daily Pakistan
- اپریل 19, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 687 Views
- 2 سال ago