کالم

وفادارانِ پاکستان

پاکستان کا دو لخت ہونا پاکستان اور اسلامی دنیا کا ایک دلخراش واقع ہے، جو اسلامی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ اسلامی کے نام پر اللہ کی طرف سے پاکستان مثل مدینہ ریاست، اللہ نے تحفہ کے طور پر برعظیم کے مسلمانوں کو عطا کی گئی تھی۔ اسی مملکت نے نشاة ثانیہ کی بنیاد رکھنی تھی۔ اسلامی دنیا کا لیڈر بننا تھا۔ مگر ہماری قومی کوتاہیوں کی وجہ کچھ وقت کےلئے رکاوٹ آئی ہے۔ ان شا اللہ یہ کام ضرور ہو کر رہے گا ۔ ہمیں معلوم ہے کہ دنیا میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جس کا پہلے اسلامی اور دو قومی نظریہ پیش کیا گیا۔ پھر اسی اسلامی نظریہ کی بنیادپر پاکستان بانی پاکستان حضرت محمد علی جناح ؒ کی قیادت میں پاکستان وجود میں۔محافظ ِپاکستان مولاناسید ابو الاعلی ٰ مودودیؒ نے ایک تاریخی بات کہی تھی کہ پاکستان کے دونوں حصوں کو صرف اور صرف اسلام ہی کی بنیاد پر اکٹھا رکھا جا سکتا ہے۔قائد اعظمؒ نے تحریک پاکستان کے دوران برعظیم کے مسلمانوں سے وعدہ کہ، پاکستان کا مطلب کیا ” لا الہ الاللہ“ پر عمل کرتے ہوئے، پاکستان بنتے ہیں اسلامی نظام حکومت کے قیام کے لیے اقدام کرنے شروع کر دیے تھے۔ اللہ نے بانی پاکستان کو جلد اپنے پاس بلا لیا۔ اس کے بعد پاکستان کے حکمرانوں نے قائد اعظم ؒکی اسلامی سوچ کے خلاف سیکولزم اورسوشلزم نظام حکومت قائم کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔جب پاکستان کی اسلامی اساس سے ہٹ کر سوشلزم اور سیکولرزم کی باتیں شروع ہوئیں تو پھر قومیتوں کی بنیاد پرحقوق کے نہ ختم ہونے والے المیہ نے جنم لیا۔ مشرقی پاکستان میں زبان اور حقوق کی تحریک اُٹھی، جس نے بلا آخر علیحدگی کا رخ اختیار کیا۔ بھارت جس نے کبھی بھی پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا، اس نے فوجی مداخلت کرکے پاکستان کی فوج کو شکست سے دو چار کر پاکستان کے دوٹکڑے کر دیے۔ اگر مولانامودودیؒ کی سوچ جوکہ بانی پاکستان قائد اعظمؒ کا اسلامی کا وژن تھی پر عمل کیا گیا ہوتا تو پاکستان کبھی بھی دو لخت نہ ہوتا۔کیا اسلام کے با برکت نام پر مسلمانوں نے بارہ سو سال تک دنیا کے سیکڑوں زبانوں، تمدنوں اور تہذبوں کو اکٹھا نہیں کر رکھا۔کیاہم اتنے بودے ہو گئے تھے کہ اپنے بنگالی بھائیوں کے ساتھ مل جل کر نہیں رہ سکتے تھے؟ اصل میں اسلام سے انحراف کی وجہ سے پاکستان دو لخت ہوا ۔ اب اس میں کسی ایک حلقہ پر الزام کے بجائے تمام حلقوں کوہی شامل کیا جائے تو صحیح ہے۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے مولانا مودودیؒ کے اسلامی افکار پر عمل کرتے ہوئے اپنا فرض ادا کیا ۔ اسلام کے سنہری اصولوں پر عمل کرتے ہوئے مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کو دو لخت ہونے سے بچانے کےلئے تاریخ میں اپنا مقام حاصل کرلیا۔ بنگال میں جماعت اسلامی کے سپوتوں نے پاکستان کی فوج کے شانہ بشانہ لڑ کر پاکستان کو دو لخت ہونے سے بچانے کےلئے بھارت کی بنائی ہوئی، مکتی باہنی اور بھارتی فوج کے ساتھ لڑائی کی۔ اس نو ماہ کی جنگ میں البدر کے دس ہزار با ہمت نوجوانوں نے شہادت کا جام نوش کیا۔پاکستانی فوج کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے اور بین القوامی سازش جس میں امریکا اور روس شامل تھے پاکسانی فوج کو شکست ہوئی ۔ بین الاقوامی طریقہ کے مطابق جنگ ختم ہونے کے بعد تینوں فریقوں میں ایک معاہدہ ہوا۔ جس میں پاکستان کے ذوالفقار علی بھٹو، بنگلہ دیش کے شیخ مجیب الرحمان اور بھارت کی اندا گاندھی شامل تھی۔ اس معاہدے میں طے ہوا کہ ایک دوسرے سے انتقامی کاروائی نہیں کیا جائے گی۔ بعد میں پاکستان کے فوجی ڈکٹیٹر پرویزمشرف نے ڈھاکہ میں بنگالی قوم سے معافی بھی مانگ لی تھی۔مگر بھارت نے بنگلہ دیش کو اپنی کالونی بنا لیا۔ بنگلہ دیش میں بھارت نے اپنی پٹھو حسینہ واجد کی حکومت قائم کی۔ جس نے اس بین الاقوامی معاہدے کی خلاف وردی کرتے ہوئے ایک نام نہاد بین الاقوامی جنگی جرائم کاخصوصی ٹریبونل قائم کیا۔ جسے انسانی حقوق کی تنظیم بین القوامی تنظیم” ہیومن رائٹس واچ“ نے یہ کہہ کر رد کر دیا تھا کہ یہ ٹرائبیونل بین القوامی معیار کے مطابق نہیں بنایا گیا۔ ساری دنیا کے بنیادی حقوق کی تنظیموں نے اس پر اعتراض کیا۔حسینہ واجد کے جعلی ٹرائبیونل نے سیاسی بنیاد پر جماعت اسلامی کے چھ مرکزی رہنماﺅں پر جعلی مقدمے قائم کرکے انہیں سزائے موت سنا کر پھانسی کے پر چڑا دیا۔کیا اپنے ملک کو کسی بیرونی جارحیت سے بچانے والے ہیرو کہلاتے ہیں یا غدار؟۔ جماعت اسلامی کے ان وفادارانِ پاکستان پر سیاسی انتقام کے طور پر مقدمے قائم کیے گئے۔ یہ” وفادارانِ پاکستان“ حسینہ واجد سے پہلے بنگلہ دیش حکومت میں ممبران قومی اسمبلی بھی رہے۔ حکومت میں وزیر بھی رہے۔ بنگالی قوم کے اسلام پسند عوام نے اُنہیں ہیرو تسلیم کیا تھا تو لاکھوں ووٹ ان کے حق میں ڈالے تھے؟ انہیں حکومت میں شامل کیا تھا۔ بھارت نے بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اپنی پٹھو حسینہ واجد کو اس حرکت پر اُکسایا۔اندرا گاندھی نے پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے پر کہا تھا کہ میں نے’قائد اعظم ؒکے دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں ڈوبو دیا ہے“۔ مگر اسلامی نظریہ اور قائد اعظم ؒ کے دو قومی نظریہ کی محافظ جماعت اسلامی بنگلہ دیش ، اسے آگے بڑھانے کے لیے ہمہ تن گوش لگی ہوئی تھی۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ جب بھارت نے کشمیر کو بھارت میں ضم کیا تو بنگلہ دیش کے عوام لاکھوں کے تعداد میں مظاہرے کئے تھے۔جماعت اسلامی بنگلہ دیش اب بھی بنگلہ دیش میں قائد اعظمؒ کے دو قومی نظریہ کے محافظ کے طور پر اسلامی اتحاد و اتفاق کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے ۔ اللہ مسلمانوں کا حامی و ناصر ہو آمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے