نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کی زیر صدارت اجلاس میں پنجاب کے 15 ہسپتالوں میں ہیلتھ مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم نافذ کرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے۔ مرحلہ وار پروگرام کے تحت ہیلتھ مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم رائج کرنے کےلئے فوری اقدامات کی ہدایت کی۔ہیلتھ مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم کے ذریعے مریض کے ٹیسٹ، تشخیص اورادویات کا ریکارڈ سنٹرلائزڈ سسٹم پر اپ لوڈ ہو گا۔سنٹرل الیکٹرانک میڈیکل ریکارڈ سسٹم کے ذریعے سرکاری ہسپتالوں میں مریض کا ڈیٹا میسر ہوگا۔ایچ ایم آئی ایس سے ڈاکٹروں اور طبی عملے کی کارکردگی کی مانیٹرنگ بھی ممکن ہوگی۔لاہورمیں جناح، چلڈرن، میو، سروسز او رجنرل ہسپتال میں ایچ آئی ایم ایس کا نفاذ کیا جائے گا۔ ڈیرہ غازی خان،فیصل آباد، راولپنڈی،گوجرانوالہ، ملتان، بہاولپور اوررحیم یار خان کے ہسپتالوں میں بھی ہیلتھ مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم نافذ کیاجائے گا۔ ہیلتھ مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم کا نفاذ مریض کی رجسٹریشن سے لیکر، اوپی ڈی، پتھالوجی، ریڈیالوجی اور فارمیسی میں کیا جائیگا۔بریفنگ میں بتایاگیاکہ انفارمیشن سسٹم سے مریض کو بہتر او رتیز ترین علاج کی سہولت میسر ہوگی۔ یہ حقیقت ہے کہ بڑے شہروں میں آبادی کے بڑھنے کی وجہ سے علاج معالجہ کی سہولیات کم ہوتی جار ہی ہیں۔ ہسپتالوں میں رش ہے۔ ایک ایک بیڈ کو دو دو ، تین تین مریض استعمال کر رہے ہیں ۔ انہوںنے ہسپتالوں کی تعمیرومرمت اورتوسیع کے پراجیکٹ ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرنے کاحکم دیا اور ڈر پ اینڈ شفٹ کے ذریعے دل کے مریضوں کے بروقت علاج پر اطمینان کا اظہار کیا۔عوام کی صحت ، خوراک اور جان و مال کا تحفظ بنیادی طورپر حکومت کی ذمہ داری ہے۔موجودہ پنجاب حکومت صحت کے معاملے میں اپنے فرائض سے پوری طور پر آگاہ ہے اور اس شعبے میں اپنی پوری توانائیاں صرف کر رہی ہے۔ ماضی میں ہسپتالوں کی حالت زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ گزشتہ دورحکومت میںگورنمنٹ ہسپتالوں میں ایک ہی بیڈ پر کئی مریض موجود ہوتے تھے اور پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں تھا۔صفائی کے ناقص انتظامات پر بھی ہسپتالوں کی انتظامیہ نے چپ سادھ لی تھی۔ مگر اب صوبائی حکومت کی شب و روز محنت رنگ لا رہی ہے اور عوام کی صحت پر اس کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ محسن نقوی اورپنجاب بار کونسل کی جیل ریفارمز کمیٹی کے اراکین سے ملاقات میں جیلوں میں قیدیوں کو بنیادی سہولتیں دینے کیلئے تجاویز پر بات چیت ہوئی۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ نے کہا کہ حکومت پنجاب بار کونسل کی جیل ریفارمز کمیٹی کی قابل عمل تجاویز کاخیر مقدم کرے گی۔ قیدیوں کے کھانے کے بجٹ میں اضافہ کیا گیاہے اور قیدیوں سے اہلخانہ سے ٹیلی فونک گفتگو کا دورانیہ ماہانہ 300 منٹ تک بڑھا دیا گیاہے۔ جیل ہسپتالوں کا انتظام محکمہ صحت کے سپرد کیا جارہاہے۔جیلو ں میں قیدیوں کے لئے بیکری او ریوٹیلیٹی سٹور قائم کئے جارہے ہیں۔جیلو ں میں پنکھے اور کولر پوری طرح فنکشنل ہیں۔جیل سٹاف کی کمی کو پورا کرنے کےلئے خالی آسامیوں پر بھرتی کی منظوری دی جا رہی ہے۔پنجاب بار کونسل کے وفد نے قیدیوں کو فری لیگل ایڈ مہیا کرنے کی پیش کش کی۔نگراں وزیراعلیٰ نے سمن آباد انڈر پاس منصوبے کی نگرانی اور بر وقت تکمیل کے لئے 2 رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جو سمن آباد انڈر پاس پراجیکٹ کو اپنی زیر نگرانی بر وقت مکمل کرائے گی ۔کمیٹی پراجیکٹ پر کام کے معیار کی نگرانی اور بروقت تکمیل میں حائل رکاوٹوں کو دور کرے گی۔کمیٹی روزانہ کی بنیاد پر پراجیکٹ کا دورہ کر کے پراگریس رپورٹ پیش کرے گی- محسن نقوی نے بحریہ آچرڈ ہسپتال اور چلڈرن ہسپتال میں ڈی ایچ کیو ہسپتال قصور سے بحریہ آچرڈ ہسپتال شفٹ کی گئی دل کے عارضہ میں مبتلا بچی سے ملاقات کی اور دل کے دو بند والو کے کامیاب آپریشن کے بعد بچی کی صحت یابی پر اطمینان کا اظہار کیا اور بچی کے علاج معالجے کے حوالے سے ڈاکٹرز سے اپ ڈیٹ لیں ۔بچی کی والدہ نے بہترین علاج معالجے پر وزیر اعلی محسن نقوی کا شکریہ ادا کیا۔ چلڈرن ہسپتال میں زیر علاج دیگر بچوں کی بھی عیادت کی اور بچوں کی ماو¿ں سے فراہم کردہ سہولتوں کے بارے استفسار کیا۔نگران وزیراعلیٰ نے کہاہے کہ کاشتکار بھائیوں سے گزارش ہے کہ کسی بھی صورت اپنی کپاس 8500 روپے فی من سے کم نہ بیچیں۔سیکرٹری زراعت اور تمام ڈویڑنل کمشنرز کپاس کی سپورٹ پرائس پر عملدرآمد کرائیں اور فوری طور پر تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر امدادی قیمت پر کپاس کی فروخت یقینی بنائیں ۔ وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ کسانوں کی آسانی کےلئے تحصیل سطح پر بھی سہولت مراکز قائم کئے گئے ہیں جہاں پر کاشتکاروں کو بیج اور سپرے مقررہ قیمت پر دستیاب ہیں۔ حکومت کاشتکاروں کو کپاس کے بیج پر فی بیگز ایک ہزار روپے سبسڈی دے رہی ہے۔ اس کے علاوہ کاشتکاروں کی رجسٹریشن اور آن لائن رپورٹنگ کا نظام وضع کیا جا رہا ہے ۔فیلڈ اسسٹنٹ کپاس کی کاشت کی نگرانی سمیت موبائل ایپ کے ذریعے مشاورتی خدمات انجام دیں گے۔ کپاس کی فصل کاشتکار وں کےلئے نہ صرف منافع بخش بلکہ کثیر آبادی کو روزگار بھی فراہم کرتی ہے۔ ملکی معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے اسکی فی ایکڑ پیداوار کے ساتھ ساتھ اسکی مجموعی پیداوار میں اضافہ دور حاضر کی اہم ضرورت ہے۔ کاشتکار اپنی آمدنی میں اضافہ کے ساتھ ساتھ قیمتی زرمبادلہ بھی کما سکتے ہیں۔