اللہ نے قرآن میں فرما دیا ہے کہ ”اللہ اُس قوم کی حالت نہیں بدلتاہے جس کو اپنی حالت بدلنے کا خود احساس نہ ہو“ اور آج ہمارا یہی حال ہے ۔جیسی عوام ہے ایسے ہی حکمران ہم کو ملتے ہیں۔ 76 سالہ قومی زندگی میںقوم نے اِس قدر صعوبتیں وتکالیفیں نہیں دیکھیں جو گذشتہ ڈیڑ ھ سال سے برداشت کررہے ہیں۔ مہنگائی اِس وقت عروج پر آگئی ہے۔عام آدمی کے لیے زندگی کے لیے کس قدر مشکل بن گئی ہے یہ اشرافیہ وحکمران طبقہ نہیں جانتاہے۔ظلم وجبر سہنا بھی ایک جُرم ہوتاہے ۔حق وصداقت کے لیے آوازبلند کرنا بھی ایک جہاد ہوتاہے ۔ آج غریب وسفید پوش انسان کے لیے جینا سزا بن گئی ہے۔پٹرول کی قیمت تین سو تیس ایک لٹر کی ہوگئی ہے۔آٹا چینی ودیگر روزمر ہ استعمال کی چیزوں کے ریٹ آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگے ہیں۔بجلی گیس کے بلز ایک عام آدمی کی دسترس میں نہیں ۔لوگ بلز ادا کریں یا گھر کا کھانے پینے کابجٹ بنائیں۔بچوں کی سکول فیس کیسے دیں۔ہمارا اشرافیہ طبقہ بہت شاندار زندگی گزار رہاہے۔اِن کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔سرکاری وسائل کو جس بے دردی سے لوٹا جارہاہے اِس کو کون روکے گا۔پچھلی حکومت کی شاہ خرچیاں دیکھیں کہ صرف وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے پچاس سے زائد سرکاری دورے کیے ۔وزیر اعظم شہباز شریف صاحب ملکہ کی تدفین پر بھی گئے اور پرنس چارلس کی تاج پوشی پر بھی گئے ۔مختلف ترقیاتی پراجیکٹ کے نام پر اربوں روپے کے پراجیکٹ شروع کردیے گئے جب عوام بھوکی مر رہی ہے ۔وزیروں ومشیروںکی ایک لمبی لائن کے ساتھ وہ شہنشاہانہ زندگی گزارتے رہے۔سرکاری وسائل پر وزیر اعظم سے لے کر وزرائے اعلی ،گورنرز ، وزراءلنچ وڈنر پروگرام کرتے رہے۔آج نئی حکومت نگران آئی تو اِس نے اِن کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ۔نہ تو بجلی میں اُنہوں نے کوئی رعایت دی اور نہ انہوں نے۔پٹرول کی قیمتوں کو وہ بھی بڑھاتے رہے اور یہ بھی اب اِن کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔مُلک میں خودکشیاں لوگ کررہے ہیں۔گھروں میں فاقہ کشی ہورہی ہے۔
آئی ایم ایف سے قرضہ ،ہم اس دلدل میں جب تک رہیں گے کبھی بھی خوشحال قوم نہیں بن سکتے ۔اب بھی وقت ہے عوام کی زندگی کو آسانیوںکی طرف کردیں۔آئی ایم ایف سے مزید ہم قرضہ نہ لیں جو دینا ہے کل قرضہ وہ قوم کو بتا یا جائے ۔یقین مانیے ان حالات میں بھی قوم و خصوصاََ بیرون ممالک میں مقیم پاکستانی یہ قرضہ اُتار کر آپ کو اس عذاب سے نجات ہمیشہ کے لیے دلوا سکتی ہے۔پٹرول کی قیمتوںکو ایک عام آدمی کی دسترس میںہونا ضروری ہے۔سرکاری اخراجات کم کرکے ،بجلی چوری کرنے والوں سے جرمانے لے کر اور کسی کو بھی ایک یونٹ بھی فری بجلی کی پالیسی سے جو پیسہ آئے اُس سے پٹرول وبجلی میںکمی کیوں نہیںکی جاسکتی ہے۔جب تک مُلک کے حالات بہتر نہیںہوتے کوئی ترقیاتی پراجیکٹ شروع نہ کیاجائے۔پٹرول ایک سوپچاس کی قیمت پر آئے گا تو بہتری آئے گی۔یہ جو بجلی بلز میں دس قسم کے مختلف اضافی ٹیکس کا بوجھ ہے اِس کو کیوں نہیں ختم کیا جاتاہے۔عوام کو گھروں میں سولر سسٹم پر آسان شرائط پر قرضہ سکیم بنکوں کے ذریعے کیوں نہیں شروع ہوسکتی ہے ۔سولر سسٹم کو ہر آدمی کی دسترس میںکرنے کے لیے سولر سسٹم کی تمام اشیاءپر امپورٹ ڈیوٹی ہم فری کیوں نہیںکرسکتے تاکہ سولر سسٹم لگانا ہر عام غریب پاکستانی کےلئے آسان ہو۔بجلی کو ہوا اور دیگر ذرائع سے بھی تو پید ا کیا جاسکتاہے۔انجینئرز وسائنسدانوں وتوانائی کے شعبے میں پروفیشنل افراد کا سیمینار اِسلام آباد میں منعقد کرکے وزیر اعظم اِس پر کیوں نہیںکام کرسکتے ہیں۔چائنا ہمیں تین سو روپے میں ایک گھر کا میٹر بجلی دینے کا ماضی میںکہہ چکا ہے۔ہم چائنا سے کیوںنہیں رجوع کرتے ہیں ۔ ایران نے سوئی گیس پاکستان کو کئی بار مفت دینے کی پیشکش کی ہے ہم اِس پر کیوں نہیںکام کرسکتے ہیں۔ہم کب تک یورپ سے ڈر کر اپنی قوم کو رُلائیں گے۔ڈاکٹر ثمر مبارک ایک پاکستان کا بڑا نام ہے جس نے شعبہ نیوکلیئر میں اٹیم بنانے میں ایک اہم کردار ادا کیا ۔یہ بڑا آدمی ماضی میں بار بار کہتارہاہے کہ تھر کے کوئلے سے ہم اتنی بجلی حاصل کرسکتے ہیںکہ ہم پانچ سو سال کے لیے اِس سے خودکفیل ہوسکتے ہیں۔ہم کیوں ماضی کی طرح بیورکریسی کی تجاویز رد کرکے کہ یہ پراجیکٹ مہنگا ہے اور یہ کارآمد نہیں ہے کو رد کرکے ڈاکٹر ثمر کی ذات پر اعتبار کرکے اِن کو دعوت دیتے ہیں کہ آپ بطور چیرمین اِس پراجیکٹ کو شروع کریں حکومت ہر ممکنہ وسائل وبجٹ دے گی۔توانائی کے شعبے میں ہمارے پاس ذہین ترین افراد موجود ہیں جن کی صلاحیتوں وتجاویز پر عمل کرنے سے بجلی کے شعبے میں ہم نہ صرف خودکفیل بلکہ سستی بجلی عوام کو دے سکتے ہیں۔بجلی چوروں کے خلاف جو اس وقت مہم شروع ہوئی ہے عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ کس طرح اربوں روپے کی بجلی اداروںکے مافیا کی ملی بھگت سے پورے ملک میں چوری ہوتی ہے۔ہمارے پاس وسائل ہیں ۔ معدنیات میں ہم خودکفیل ہیں مگر ہماری حکومتوں کو اِن پراجیکٹ پر کام کرنے میں دلچسپی نہیںہے کہ ہم کیسے دُنیا بھر میں اپنے وسائل ایکسپورٹ کرکے مُلک کو امیرترین کرسکتے ہیں۔ ہماری کرپشن سے آج پی آئی اے دیوالیہ ہوچکاہے ہر ماہ اربوں روپے کا خسارہ ہوتاہے۔آج ایک ایماندار صالح انسان اگر اس کا چیرمین لگا دیں تو یہ پی آئی اے منافع بخش ہوسکتاہے۔ بجلی کے غیرضروری سرکاری استعمال ،بجلی چوری بچاﺅ،بجلی فری پیکج ختم سے عام آدمی کو بہت بڑا ریلیف مل سکتاہے ۔ سرکاری اداروں کے ذمے جو بل بجلی فراہم کرنے والے اداروں کے ہیں وہ اربوں کی مالیت میںہیں اداروںکو پابند بنایا جائے کہ ہر ماہ ادائیگی کی جائے۔یہ سب نظام ٹھیک ہوسکتاہے مگر جب اُوپر بیٹھے ہوئے حکمران اپنی اصلاح کریں گے ۔دفاتر سے ایئر کنڈیشنر ہٹا دیے جایں ۔ہم کیوں نہیںپنکھے میں بیٹھ کر آٹھ گھنٹے کام کرسکتے ہیں۔آج ہندوستا ن کے پاس چھ سو بلین ڈالرز کا ذخیرہ ہے اور ہم دُوسرے ممالک کے آگے ایک ایک بلین ڈالر کے لیے بھیک مانگنے کے لیے وزیراعظم چلے جاتے ہیں ۔ہم آٹیمی طاقت تو ہیں مگر ایک خوشحال قوم نہیںہیں۔سیاستدانوں کے اپنے مفادات ہر دور میں رہے ہیں ۔ چڑھتے سورج کے پچاری یہ ہوتے ہیں ۔ آج وکلاءکیوں نہیں باہر بجلی گیس وپٹرول بلوں کے لیے عام آدمی کے لیے نکل رہے ہیں۔سوائے جماعت اسلامی کے کوئی جماعت عوام کے لیے احتجاج نہیں کررہی ہے۔ڈالر ریٹ کم ہورہا ہے اور ہمیں مزید پٹرول مہنگا ملنے جارہاہے ۔
آج عوام کو اپنے حق کے لیے بھی آواز اُٹھانی ہوگی ورنہ آنے والے چند ماہ میںیہ پٹرول ایک لٹر آپ کو چار سو میں ملے گا ۔بجلی گیس کے بلز اتنے بڑھ جائیں گے کہ آپ کے لیے ہر ماہ ادا کرنا مشکل ہوجائے گا ۔مہنگائی اتنی بڑھ جائے گی کہ غریب وسفید پوش لوگ جیتے جی مرجائیں گے ۔آج قوم کی تکلیف میں کون اِس کے زخموں پر مرحم رکھے گا ؟کیا ایوانوں تک جانے والی آواز پر حکمران خاموش رہیں گے ؟ ۔چیف جسٹس صاحب قوم آپ کی طرف دیکھ رہی ہے ایوانوں میں انصاف کی گھنٹیوں کو ہلائیں اور عام سائل کی پریشانیوں کو دُور کرنے میںا پنا کردار ادا کریں۔ خُدارا اِس قوم پر چیف جسٹس صاحب آپ ایکشن لے کر احسان کریں عوام کو پٹرول و بجلی گیس بلوں میں ریلیف دلوادیں۔
کالم
ایک سوموٹو عوام کے لیے بھی!
- by web desk
- ستمبر 23, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 326 Views
- 1 سال ago