میں ملک کا نام نہیں بتا¶ں گا،بس آپ افریقہ یا لاطینی امریکہ کا نقشہ کھول کر بیٹھ جائیں۔اور اپنی توفیق اور اپنے علم اندازہ و قیاس کی مدد سے گمانوں کے لشکر دوڑاتے رہیں، عام طور پر لشکر دوڑانے والے اس طرح کے ملک یہیں پائے یا بنائے جاتے ہیں۔دنیا بدل گئی، زمانے کا چلن اور تیور بدل گئے، اگر امن کے معنی تبدیل ہوئے تو جنگ نے بھی اپنی صورتیں بدل لیں، نہیں بدلا تو مختلف زمانوں اور جدا جدا علاقوں میں سپہ سالاروں کا چلن اور لشکریوں کا طریقہ واردات نہیں بدلا۔وہ ہر جگہ اپنی کچی پنسل سے لکھی اول فول باتوں اور مبہم پروگراموں کو ڈاکٹرائن کا نام دینے پر اصرار کرتے ہیں۔تحقیق و تاریخ باور کراتی ہے کہ ایسے ملکوں،کہ جن کی طرف ابھی اشارہ کیا تھا، کے سپہ سالاروں کے ”ڈاکٹرائن ”ہی ان ملکوں کا بیڑا غرق کرنے کاسبب ہوتے ہیں۔ سپہ سالار غصب اقتدار کے بعد ہر وہ کام بڑے پرجوش طریقے سے کرنا شروع کر دیتے ہیں، جس کی انہیں کوئی تعلیم یا تربیت نہیں ملی ہوتی۔ مثال کے طور پر کسی سپہ سالار کا کیا کام ہے کہ اپنے ملک کے تاجروں سے ملاقات کرنے کا سوچے؟ ستم ظریف کا کہنا ہے کہ دراصل خراب حال ملکوں کے تاجر ہی اس ملک کی خراب معیشت کے بڑے ذمہ داروں میں شامل ہوتے ہیں۔،لہٰذا کسی بھی ملک کے ڈکٹیٹر کی دوسری سازباز اپنے ملک کے تاجروں اور دیگر جرائم پیشہ لوگوں کے ساتھ ہی ہوتی ہے۔کئی افریقی اور بعض لاطینی امریکی ملکوں سے ایسی مثالیں کثرت سے مل جائیں گی۔ اس امر کے باوجود کہ معیشت بحال کرنا اورپالیسیاں بنانا تو سیاست دانوں کا کام ہوتا ہے، یہ ڈکٹیٹر اپنی واردات معیشت بحال کرنے کی چھتری تلے ہی کرتے ہیں۔ستم ظریف کہتا ہے کہ یہ بھی تو ممکن ہے بیشتر صورتوں میں ان ملکوں کے سپہ سالار دفاع اور جنگ سے دلچسپی ہی نہ رکھتے ہوں؟ یا شاید وہ سب جان چکے ہوں کہ اب جنگوں اور دفاع کے تصورات بدل چکے ہیں۔ جن ملکوں میں جہالت کو مختلف ناموں سے معاشرے کا مقدر بنا دیا جاتا ہے،وہاں جنگ سے گھبرائے جرنیل اپنی یلغار کا رخ خود اپنے ہی عوام کی طرف موڑ لیتے ہیں۔افریقی ممالک میں جہاں جہاں ڈکٹیٹرز نے غصب اقتدار کی منافع بخش وارداتیں کر رکھی ہیں، ان کی ایسی حماقتوں سے عام لوگوں کو فوج ہی سے بے زاری ہو جاتی ہے۔ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ غصب اقتدار کی حماقت کرنے والے اس کام کی ذمہ داری کیسے اٹھا لیتے ہیں،جن کی انہیں کوئی تربیت نہیں ہوتی،جس کام کی تربیت کے ساتھ ساتھ اہلیت بھی نہ ہو اسے کرنے کی کوشش کرنا تو نری حماقت ہی خیال کی جا سکتی ہے۔میں نے ستم ظریف کو سمجھانے کے لیے بتایا کہ میں کبھی کبھار ہوائی سفر کرتا ہوں۔لیکن باوجود شوق اور فراواں ہمت کے،میں نے کاک پٹ میں گھس کر جہاز چلانے کی ضد یا کوشش نہیں کی۔حالانکہ ہوائی جہاز اڑانا ایک نووارد کے سائیکل چلانے سے کم مشکل کام ہوتا ہے۔کہنا یہ چاہتا ہوں کہ جو کام آپ کے بس کا نہ ہو،وہ نہیں کرنا چاہیئے۔ یہی وجہ ہے کہ فلمیں دیکھنے کا شوقین ہونے کے باوجود میں نے کبھی کسی فلم کا ہیرو بننے کی خواہش یا کوشش نہیں کی، وجہ تبلیغی جماعت کے ڈراﺅے نہیں، ہماری ہیروئینوں کے بھاری بھرکم جسم اور وزن ہیں۔یہ کسے اچھا لگے گا کہ گانے کے دوران میں کسی فربہ ہیروئن کو اٹھا لوں اور خود دھڑام سے نیچے بیٹھ جاوں؟ تو انسان کو وہی کام کرنا چاہئے جو اسے آتا ہو یا جو وہ کر سکتا ہوں۔میری بات سن کر ستم ظریف نے ہنسنا شروع کردیا،ساتھ ساتھ وہ مجھے سر سے لے کر پا¶ں تک دیکھے بھی جارہا تھا۔میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ اگر آپ درپردہ پاکستانی سیاست کے معاملات کی طرف اشارے کرنا چاہتے ہیں تو آپ کا یہ اسلوب بڑا ہی کمزور نظر آ رہا ہے۔سب جانتے ہیں کہ سپہ سالار کہاں اور کس طرح مداخلت اور تجاوز کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ اور یہ بھی کہ انہوں نے اپنے متوقع اعمال کی قبولیت کے کیسے کیسے بندوبست کر رکھے ہوتے ہیں۔ایسے میں آپ گھما پھرا کر بات کیوں کر رہے ہیں؟ پہلے مجھے کبھی کبھی ستم ظریف کی دماغی صحت پر شک ہوا کرتا تھا، آج اس کی باتیں سن کر مجھے اپنی دماغی صورت حال پر تشویش محسوس ہونے لگی۔گویا مجھے،میرے خیال میں،بہت اچھی طرح سے جاننے کے باوجود ستم ظریف نے یہ کس طرح سے سوچ لیا کہ میں اپنے ملک میں سپہ سالاروں کی اندرونی فتوحات کو موضوع بحث بناوں گا؟ میں ایسی حماقت کیسے کر سکتا ہوں؟ میں اگر فرض کریں اپنے ملک کے حوالے سے کسی بات پر اعتراض کرنا بھی چاہوں تو بصد احترام بس یہی کہوں گا کہ اکیسویں صدی کی تیسری دہائی کے آغاز پر بھی ان کے زیر استعمال ڈائریاں ساٹھ کی دھائی سے تعلق رکھتی ہیں ۔ سمجھنے کی کوشش کریں،اگر ہم صنعت کاروں کو سہولت دیں گے،تو سب سے پہلے ہمیں فراواں اور سستی بجلی فراہم کرنی پڑے گی ۔ صنعت کی ترقی سے ملک ترقی کرتا ہے ، افرادی قوت بااختیار ہوتی ہے۔صنعت کار یونیورسٹیوں کے ساتھ انڈسٹریل ریسرچ کے پراجیکٹ فنانس کرینگے۔جس سے ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کا فراڈ متاثرہوگا۔صنعتی معاشروں کو من پسند مشکوک لوگوں کی حکومت سے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔صنعتی معاشرہ مطلق، فوری اور شفاف انصاف کی بنیاد پر چلتا ہے۔کچھ یہی وجہ ہے کہ ہم تاجروں پر انحصار کرتے ہیں ، جو صرف روپیہ اور ڈالر ذخیرہ کرتے ہیں ۔ اور اسمگلنگ میں معاون ثابت ہوتے ہیں ۔ لیکن یہ باتیں بھی میں اصلاح اور احتیاط کی طرف متوجہ کرنے کےلئے کروں گا ۔ کسی کا دل دکھانا کبھی بھی میرا مقصد نہیں رہا ۔ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جس کے سیاستدانوں کی بھی آپسی بول چال بند ہو جاتی ہے۔یاد رکھنا چاہیئے، نہ صرف پاکستان ،بلکہ بھلے وہ افریقی ممالک ہوں ، بھلے لاطینی امریکی ممالک، جہاں جہاں سیاستدانوں کے درمیان مکالمہ مجروح یا معطل ہوا،تو غیر مجاز مداخلت کا راستہ کھل جاتا ہے۔جمہوری سیاست نام ہی مکالمے کا ہے، لیکن حیرت ہے یہاں کوئی مسائل کے حل کےلئے باہم بات چیت کرنے کےلئے تیار ہی نہیں۔سارے جغادری سیاستدان جھاڑیوں کے پیچھے چھپ کر جنگل کی صورت حال کا جائزہ لے رہے ہیں ۔ ہاں مگر، عامتہ الناس کے مسائل اور مصائب کسی کی ترجیحات میں شامل نہیں۔اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستانی اور ان تمام افریقی اور لاطینی امریکی ملکوں کے عوام،کہ جہاں جہاں جمہوریت ہر لحظہ لرزہ بر اندام رہتی ہے،خود اپنے راہنما بن کر انقلاب برپا کرنے کی طرف توجہ دیں، انہیں اپنے دلوں سے کسی نجات دہندہ کے انتظار کے وسوسے کو نکال کر خود کو ہی اپنا نجات دہندہ تسلیم کرنا پڑے گا۔ستم ظریف گویا ہوا کہ ان تمام ممالک کے آئین اپنے اپنے مداخلت کاروں کو مسلسل ناکام تجربات کرنے کی اجازت کیسے دے دیتے ہیں؟اس سے پہلے کہ میں کوئی تاویل پیش کرتا، آسمانوں سے آواز آئی کہ؛ اے نادان لوگو! وہ یہ کام بغیر کسی آئینی اجازت کے ہی کر گزرتے ہیں۔اور پھر بعد میں آنےوالے اپنے سے پہلے والوں کے گناہوں کی پردہ پوشی بھی کرتے ہیں۔ ان سارے ممالک کے مداخلت کار پرانے اور ناکام گناہوں کو ہی دھراتے رہتے ہیں ۔ ان سے کسی نئی بات یا کسی تازہ واردات کی توقع کرنا سراسر نادانی اور حماقت ہے۔