کالم

کاش! وہ وقت لوٹ آئے

مولانا صاحب نے نمازِ جمعہ کا سلام پھیرا ہی تھا کہ ایک نمازی نے بلند آواز سے مولانا صاحب سے گزارش کی کہ مہربانی فرما کر پاکستان کے معاشی حالات میں بہتری کےلئے بھی دعا فرما دیں۔ مولانا صاحب نے نظر بھر کر نمازیوں کی طرف دیکھا کچھ سوچا اور کہا دعا سے پہلے ایک ضروری اعلان سماعت فرمائیں یہ کہتے ہوئے مولانا صاحب نے جیب سے ایک لفافہ نکالا اور بولے کہ مجھے یہ ایک لفافہ ملاہے جس میں 3000 ہزار روپے موجود ہیں جس کسی کے ہوں وہ نشانی بتا کر لے سکتا ہے اس کے بعد دعا ہوگی اسکے ساتھ فوراً ہی 5 نمازی کھڑے ہوگئے۔ سب کے سب دعویدار تھے کہ یہ روپے ان کے ہیں مولانا صاحب انہیں آگے بلالیا پھر انتہائی متانت سے فرمایا دل تونہیں چاہتا میں کسی کو جھوٹا قراردے دوں مگر اس کا فیصلہ تمام نمازی حضرات خودکرلیں میں کسی کے بارے میں کچھ نہیں کہناچاہتا ایک نمازی بھائی نے معاشی حالات کی بہتری کےلئے دعا کا کہا تو فورا© خیال آیا ہم اپنے ایمان کا چھوٹا سا ایک ٹیسٹ ہی کرلیں حضرات حقیقت یہ ہے کہ یہ پیسے مجھے میری بیوی نے سودا سلف لانے کےلئے دئیے ہیں ہماری دعائیں اسی لئے قبول نہیں ہوتیں کہ جھوٹ مجموعی طورپر معاشرے کا اوڑنا بچھونا بن چکاہے آپ سب تشریف رکھیں اور دوسروں کو ٹوپیاں پہنانے سے باز آ جائیں جھوٹ کو چھوڑ دیں پاکستان کی معاشی حالات خود ہی ٹھیک ہو جائیں گے۔ یہ تو حالات کو آج کے ہیں اب ماضی کا تذکرہ بھی ہوجائے جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ہم آج کہاں کھڑے ہیں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عیسائیوں کے ایک قلعہ کا محاصرہ کیا تو ان کا سب سے بوڑھا پادری آپ کے پاس آیا اس کے ہاتھ میں انتہائی تیز زھر کی ایک پڑیا تھی اس نے حضرت خالد بن ولید سے عرض کیا کہ آپ ہمارے قلعہ کا محاصرہ اٹھا لیں اگر تم نے دوسرے قلعے فتح کر لئے تو اس قلعہ کا قبضہ ہم بغیر لڑائی کے تم کو دے دینگے ۔ حضرت خالد بن ولیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا نہیں ہم پہلے اس قلعہ کو فتح کریں گے بعد میں کسی دوسرے قلعے کا رخ کریں گے یہ سن کر بوڑھا پادری بولا میں جنگ پسندنہیں کرتا اگر تم اس قلعے کا محاصرہ نہیں اٹھاو¿ گے تو میں یہ زہر کھا کر خودکشی کر لوں گا اور میرا خون تمہاری گردن پر ہوگا حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمانے لگے ۔
یہ ناممکن ہے کہ تیری موت نہ آئی ہو اور تو مر جائے
بوڑھا پادری تنک کر بولا اگر تمہارا یہ یقین اتنا قوی ہے تو لو پھر یہ ز ہر کھا لوحضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ زہر کی پڑیا پکڑی اور یہ دعا بسم اللہ وباللہ رب الارض ورب السماءالذی لا یضر مع اسمہ داء پڑھ کر وہ زہر پھانک لیا اور اوپر سے پانی پی لیا۔ بوڑھے پادری کو مکمل یقین تھا کہ یہ چند لمحوں میں موت کی وادی میں پہنچ جائیں گے مگر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ چند منٹ آپ کے بدن کو شدیدپسینہ آیا اس کے علاوہ کچھ بھی نہ ہوا، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پادری سے مخاطب ہو کر فرمایا دیکھا اگر موت نہ آئی ہو تو زہر کچھ نہیں بگاڑتا پادری کوئی جواب دئیے بغیر اٹھ کر بھاگ گیا اور قلعہ میں جا کر کہنے لگا۔ اے لوگو میں ایسی قوم سے مل کر آیا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی قسم اسے مرنا تو آتا ہی نہیں وہ صرف مارنا ہی جانتے ہیں جتنا زِہر ان کے ایک آدمی نے کھا لیا اگر اتنا پانی میں ملا کر ہم تمام اہلِ قلعہ کھاتے تو یقیناً مر جاتے مگر اس آدمی کا مرنا تو درکنار وہ بیہوش بھی نہیں ہوا۔ میری مانو تو قلعہ اس کے حوالے کر دو اور ان سے لڑائی نہ کرو چنانچہ وہ قلعہ بغیر لڑائی کے صرف حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قوت ایمانی سے فتح ہو گیا۔ یہ ماضی کی باتیں ہمارے اسلاف کی قوت ِ ایمانی کا تدکرہ جو ہمیں آج قصے کہانیاں لگ رہی ہیں کاش وہ اسلام کی نشاط ِ ثانیہ کا دور لوٹ آئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے