کالم

تقسیم درتقسیم پاکستان کا بڑامسئلہ

پاکستان کے بڑے بڑے مسائل میں آج ایک سب سے بڑا مسئلہ تقسیم در تقسیم کا عمل ہے گروہی مفادات، خود غرضی’ سیاسی محاذ آرائی’ انتشار’ افراتفری نے گزشتہ آٹھ دس سالوں کے دوران ہمیں انتہائی کمزور کردیا ہے- آئندہ آنےوالی منتخب حکومت کےلئے ملک میں جاری تقسیم در تقسیم کے عمل سے نمٹنا اور قومی یکجہتی کو فروغ دینا کسی چیلنج سے کم نہیں ہوگا ہمیں اس حقیقت کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ کسی بھی ریاست کی بنیادی کنجی یا کامیابی کا نکتہ اس کے داخلی استحکام کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ کیونکہ داخلی استحکام ہی عملی طور پر اسے علاقائی اور خارجی محاذ پر موجود مسائل سے نمٹنے کی حقیقی طاقت فراہم کرتا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ سیاسیات میں ایک عمومی تھیوری یہ دی جاتی ہے کہ جو بھی ریاست اپنے داخلی مسائل کے چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے وہی اپنے خارجی مسائل سے نمٹ کر بہتری کا محفوظ راستہ تلاش کرنے کی بھی صلاحیت قائم کرسکتی ہے-سیاسی نظام بنیادی طور پر وقت کے ساتھ ساتھ اپنے اندر اصلاحات او رتبدیلیوں کی بنیاد پر آگے بڑھتا ہے۔عملی طور پر سیاسی نظام بڑی طاقت ور اصلاحات چاہتا ہے جو سیاسی سطح پر سیاسی جماعتوں سمیت مجموعی طور پر سیاسی، جمہوری او رپارلیمانی نظام کو مضبوط بنائے اور لوگوں کے اس نظام پر اعتماد کو بحال کرنے میں کچھ بڑے فیصلے کرسکے۔ادارہ جاتی سطح پر پولیس، عدلیہ، بیوروکریسی، ایف بی آر اور انتظامی اصلاحات کو اپنی قومی ترجیح کا ایجنڈا بنانا ہوگا اور آج ہم ادارہ جاتی سطح پرجو مسائل دیکھ رہے ہیں وہ ہم سے غیر معمولی اقدامات کے متقاضی ہیں۔ ارض پاک اس وقت جس داخلی بحران کا شکار ہے اس سے نمٹنا کوئی مشکل کام نہیں -سیاسی عدم استحکام سے نمٹنے کےلئے ایک مضبوط سیاسی کمٹمنٹ، وژن، سوچ، فکر، تدبر، فہم و فراست، مضبوط عملی قیادت سمیت ایک واضح اور شفاف روڈ میپ کی ضرورت ہے جو قومی سطح پر موجود مسائل کے درست ادارک کے ساتھ تعلق رکھتا ہو- یعنی ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے داخلی مسائل کیا ہیں او ران مسائل کی وجوہات کیا ہیں اوران کے معاشرتی اثرات سمیت ان سے نمٹنے کا حل کیا ہونا چاہیے۔مسائل کی نشاندہی اور اس سے نمٹنے کا مشترکہ حل اگر تمام اہم فریقین کی مدد سے اتفاق رائے پر مبنی ہو تو معاملات سے نمٹنا زیادہ آسان ہوجاتا ہے۔ہمیں اپنے داخلی مسائل سے نمٹنے کےلئے پرانے یا فرسودہ خیالات یا روائتی حکمت عملی یا سوچ کے بجائے ایک نیا تدبر اور حکمت عملی درکار ہے۔ جب ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہمیں داخلی سطح پر بے شمار چیلنجز ہیں تو ان غیر معمولی حالات سے نمٹنے کےلئے بھی ہمیں غیر معمولی اقدامات درکار ہیں۔ ان اقدامات کےلئے ہمیں روائتی انداز سے حکمت عملی کو ترتیب دینے کے بجائے آوٹ آف بکس جاکر کچھ بڑے، کڑوے اور سخت فیصلے کرنا ہونگے جو بطور ریاست ہمیں ایک مضبوط ، مربوط او رشفاف نظام کی جانب لے کر جا سکیں ۔ہمیں داخلی سطح پر درپیش بڑے چیلنجز میں اول بنیادی مسئلہ گورننس کا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو جہاں بہت سے مسائل کا سامنا ہے وہیں عام آدمی اور ریاست میں حکمرانی کے رشتہ میں دوریاں اور خلیج پیدا ہوتی جارہی ہے- گورننس کا فقدان ملک میں غیر یقینی صورتحال، مایوسی اور ریاست پر عام آدمی کے اعتماد سمیت ریاستی ساکھ کو کمزور کرنے کے باعث بنتا ہے جیسا کہ ملک میں اس وقت ہورہا ہے-معاشی بدحالی، لوگوں کو کم روزگار کے مواقع، معاشی تفریق یا ناہمواریوں سمیت معاشی ترقی کے امکانات کی کمی،بالخصوص کمزور طبقات میں موجود معاشی پریشانی جیسے مسائل کی موجودگی، قومی داخلی سکیورٹی کا نظام جہاں ریاست سمیت مخصوص طبقات کے بجائے تمام شہریوں کی سکیورٹی کو تحفظ دینا، عدالتی انصاف پر مبنی نظام میں موجودخرابیاں اور لوگوں کا انصاف یا عدالت کے نظام پر عدم اعتماد’ ادارہ جاتی نظام یا بیوروکریسی کی سطح پر روائتی انداز حکمرانی بھی ہماری ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں- سیاسی، سماجی، معاشی اور قانونی اصلاحات کے ایجنڈے سے انحراف پر مبنی پالیسی، معاشرے میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی یا ریاست کے مقابلے میں متبادل ریاست قائم کرنا یا سیاسی و مذہبی، لسانی بنیادوں پر طاقت اور اسلحے کی بنیاد پر جتھے بنانا، سیاسی عدم استحکام جہاں حکمرانی کے نظام کو عملا مضبوط کرنے کے بجائے سیاسی جماعتوں اور قیادت کی جانب سے محض ذاتیات و اقتدار پر مبنی سیاست جیسے مسائل بھی دن بدن ہمیں کمزور کرنے کا باعث بن رہے ہیں-کسی بھی جمہوری ملک میںسیاسی نظام بنیادی طور پر وقت کے ساتھ ساتھ اپنے اندر اصلاحات اور تبدیلیوں کی بنیاد پر آگے بڑھتا ہے۔عملی طور پر سیاسی نظام بڑی طاقت ور اصلاحات چاہتا ہے جو سیاسی سطح پر سیاسی جماعتوں سمیت مجموعی طور پر سیاسی، جمہوری او رپارلیمانی نظام کو مضبوط بنائے اور لوگوں کے اس نظام پر اعتماد کو بحال کرنے میں کچھ بڑے فیصلے کرسکے ہماری یہ بد قسمتی ہے کہ ہم نے آج تک مل بیٹھ کر سیاسی نظام میں بنیادی اصلاحات اور تبدیلیوں کی جانب پیش رفت کے سلسلے میں کچھ نہیں کیا- وقت آگیا ہے کہ ہمیںادار ہ جاتی سطح پر پولیس، عدلیہ، بیورو کریسی، ایف بی آر او رانتظامی اصلاحات کو اپنی قومی ترجیح کا ایجنڈا بنانا ہوگا ہمیں ادارہ جاتی سطح پر درپیش مسائل غیر معمولی اقدامات اور ٹھوس اصلاحات کے متقاضی ہیں ادارہ جاتی اصلاحات کے بغیر ملک کا آگے بڑھنا مشکل ہے- اداروں کی مکمل خودمختاری، شفافیت اور سیاسی مداخلت کے خاتمے سمیت میرٹ پر عملدرآمد کرکے ہی ہم ریاست کو درپیش مختلف مسائل ‘مشکلات اور بحرانوں کو کم کرسکتے ہیں جو تیزی کے ساتھ ملک کی بقاءاور سلامتی کے لئے خطرناک بنتے جارہے ہیں- بالخصوص عدالتی اور بیوروکریسی کی سطح پر سخت گیر اور ضروری اصلاحات ناگزیر ہوچکی ہیں اگر ہم نے فوری طور پر اس سلسلے میںاہم اقدامات نہ اٹھائے تو بہتر حکمرانی کے باوجود ہم بڑے نتائج حاصل نہیں کرسکیں گے- قومی سطح پر مختلف سیاسی، سماجی، مذہبی، فرقہ وارانہ اور لسانی بنیادوں پر تقسیم در تقسیم نظر آرہی ہے اس کے خلاف ہمیں ایک متبادل بیانیہ کو طاقت دینی ہوگی علاوہ ازیں مختلف حوالوں سے سیاسی او رمیڈیا سمیت رائے عامہ کی سطح پر جاری تقسیم کا کھیل عملی طور پر ریاستی مفاد کےخلاف ہے۔ اس میں کچھ افراد یا ادارے جان بوجھ کر ریاستی نظام کو کمزور کرنے کے کھیل کا حصہ ہیں اور اس کا براہ راست فائدہ وہ قوتیں اٹھارہی ہیں جو ہمیں ہر محاذ پر کمزور کرنے کا ایجنڈا رکھتی ہیں۔ ملک کی موجود صورت حال اور بحرانوں کے تناظر میںایک بات سمجھنی ہوگی کہ اگر ہم نے لوگوں یا انفرادی سطح پرموجود لوگوں کے بجائے قانون او راداروں کی سطح پر حکمرانی کے نظام کو موثر او رمضبوط نہ بنایا تو داخلی چیلنجز سے نمٹنا او رزیادہ مشکل عمل ہوجائے گاکیونکہ خاص طو رپر نوجوانوں کو خا ص ٹارگٹ کرکے ان میں تقسیم کی شدت کو ابھارا جارہا ہے جو عملی طور پر انتہا پسندی یا شدت پسندی کو طاقت دیتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے