پنجاب مےں اساتذہ اور سرکاری ملازمےن نے حکومت کی طرف سے مبےنہ طور پر بعض اقدامات کے خلاف جو احتجاج شروع کےا تھا ۔اس سلسلے مےں سول سےکرٹرےٹ کے باہر آنے والے اساتذہ اور سرکاری ملازمےن پر کرےک ڈاﺅن کےا گےا ۔اساتذہ پر آنسو گےس اور شدےد لاٹھی چارج کرتے ہوئے متعدد افراد کو گرفتار کر کے ان کو مختلف تھانوں مےں منتقل کر دےا ۔پولےس نے اس وقت تمام حدود کراس کر دےں جب مظاہرے مےں شامل خواتےن پر بھی لاٹھی چارج اور گرفتار کےا گےا ۔پولےس نے ہوائی فائرنگ بھی کی ۔کرےک ڈاﺅن کے دوران پکڑے جانے والوں کے خلاف تو مقدمہ درج کر لےا گےا اور باقےوں کو مےن ٹےننس آف پبلک آرڈر ،اےم پی او کے تحت نظر بند کر دےا گےا ۔ان سرکاری ملازمےن کو جب عدالت مےں پےش کےا گےا تو اےف آئی آر مےں بےان کئے گئے الزامات سے متعلق شواہد اور ثبوت نہ ہونے کی بنا پر عدالت نے ان ملازمےن کی رہائی کا حکم دے دےا لےکن اےم پی او کے تحت گرفتار ہونے والے ملازمےن تا حال پولےس کی حراست مےں ہےں ۔اساتذہ اور سرکاری ملازمےن نے ےہ مظاہرے ان اطلاعات کے بعد شروع کئے جن مےں کہا گےا ہے کہ حکومت تعلےمی اداروں کو نجی شعبے کے حوالے کر رہی ہے ۔اس کے علاوہ رےٹائر منٹ پر لےو ان کےش منٹ پر پابندی ،پنشن مےں کمی کی جا رہی ہے اور تنخواہوں مےں سالانہ انکرےمنٹ کے خاتمے کی تجوےز ہے ۔ان اطلاعات پر پورے صوبے کے اساتذہ اور سرکاری ملازمےن مےں تشوےش کی لہر دوڑ گئی ۔ان کا کہنا تھا کہ تےس چالےس برس کی ملازمت کے بعد سرکاری ملازمےن کو بے ےارو مددگار کےا جا رہا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ ےکم جون سے لےو ان کےش منٹ ختم کر دی گئی ہے ۔کسی ملازم کی وفات کی صورت مےں 12تنخواہےں اس کے لواحقےن کو نہےں دی جائےں گی ۔اس کے علاوہ اےک سال قبل چھٹی اپلائی کرنا ہو گی اور چھٹی کے انکار پر ابتدائی بنےادی تنخواہےں ہی ملےں گی ۔ سالانہ ترقی (انکرےمنٹ) کو بند کےا جا رہا ہے اور اب بجٹ مےں ملنے والا اےڈہاک رےلےف بنےادی تنخواہ کا حصہ نہےں بناےا جائے گا ۔پنشن رولز مےں بھی تبدےلی کی جا رہی ہے ۔
معزز قارئےن تعلےم سے وابستہ مسائل تو پہلے ہی لا محدود تھے ۔طلباء،والدےن ،ماہرےن تعلےم اور اساتذہ سبھی ان مسائل سے پرےشان تھے ،بہتری کی گنجائش اگر کہےں نظر بھی آئی تو کرپشن نے اسے اپنے شکنجے مےں لے لےا ۔پھر مسائل سنگےن سے سنگےن تر ہوتے چلے گئے ۔اب پھر نئے مسئلے شروع کر دئےے گئے ہےں ۔حکومت نے تعلےمی اداروں کو بتدرےج نجی تحوےل مےں دےنے کا فےصلہ کےا ہے ۔اب تو قومی اثاثوں کو نجی تحوےل مےں اس طرح دےا جانے لگا ہے کہ گمان ہونے لگا ہے کہ کہےں پولےس ،انتظامےہ ،سرکاری ادارے حتیٰ کہ ملک کی زمےن اور آخر مےں اس کے عوام تو نےلام نہےں کر دئےے جائےں گے ۔ےہ کبھی ممکن ہوتا ہے کہ دےوالےہ پن دور کرنے کےلئے اثاثے اور گھر بار کی لوٹ سےل لگا دی جائے تو بچت کے امکانات پےدا ہو جاتے ہےں ۔ےہ نہ تو کبھی ہوا ہے اور نہ کبھی ہو گا بلکہ اس عمل سے آزادی تو کےا زندگانی قائم رکھنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ماضی مےں سرکاری فرموں کو پرائےوٹائز کرنے سے عوام کا معےار زندگی بلند نہےں کےا جا سکا ۔اداروں کی نج کاری کا مقصد غےر ملکی قرضوں کی ادائےگی تھا لےکن نج کاری سے حاصل شدہ رقم غےر ملکی قرضوں کی ادائےگی پر خرچ نہےں کی گئی ۔اس عمل سے تو صرف ملازمےن ،مزدور اور ورکرز بے روزگار ہوئے ۔ اگر آپ فلسطےن کی تارےخ پر نظر ڈالےں تو معلوم ہو گا کہ دنےا بھر سے نکالے ہوئے ےہودےوں نے فلسطےن کا رخ کےا اور ان سے ان کی زمےنےں خرےدنا شروع کر دےں اور انہےں جب کئی گنا زےادہ قےمت ملنے لگی تو انہوں نے دھڑا دھڑ اپنے اثاثے ےہودےوں کو اس قدر فروخت کر دئےے کہ ےہودےوں نے ان ہی کی زمےن پر اسرائےل کی رےاست کھڑی کر دی ۔انہےں جب احساس ہوا تو وقت گزر چکا تھا ،سب کچھ لٹا کے ہوش مےں آئے تو کےا ہوا۔وطن عزےز مےں مہنگائی اور بے روزگاری جےسے مسائل کو چھوڑ کر صرف تعلےم اور صحت کے شعبوں کو ہی لے لےں تو حکومتی حکمت عملی سمجھ سے ماورا ہے ۔حکومت ان کو اپنے اوپر بوجھ سمجھتی ہے اور جلد از جلد چھٹکارا حاصل کرنے کے چکر مےں ہے ۔تعلےم اور صحت تقرےباً تمام ممالک مےں مفت ہے لےکن ہمارے آقا ان شعبوں کو کاروباری خطوط پر استوار کرنا چاہتے ہےں ۔اگر ان اداروں کو غےر ملکی آقاﺅں کی امداد پر چلنے والی اےن جی اوز کے حوالے کر دےا گےا تو پھر نتائج اچھے نہےں نکلےں گے ۔اےک خبر اس حوالے سے ےہ بھی ہے کہ اس نجکاری کے پےچھے اےک مخصوص گروہ ہے جو ان سرکاری اداروں کی زمےن اور عمارتےں قابو کرنے کے چکر مےں ہے ۔وطن عزےز مےں تعلےمی اداروں کو سابقہ وزےر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے گورنمنٹ کی تحوےل مےں لےا تھا ۔ان کا ےہ اقدام اس وقت کے مطابق نہاےت موزوں تھا ۔ےہ ادارے اس زمانے مےں کاروباری بنےادوں پر چل رہے تھے ،اساتذہ کےلئے سروس کے تحفظات بالکل نہےں تھے ۔مالک سکول جس وقت چایتا کسی استاد کو بھی ملازمت سے برخاست کر دےتا ۔اساتذہ کے مشاہرے بالکل معمولی تھے ۔بچوں پر فےسوں کا بوجھ بہت زےادہ تھا ۔آج جبکہ ےہ ادارے اپنے تعلےمی سفر کی جانب رواں دواں ہےں اور انہےں دوبارہ نجی تحوےل مےں دےنا کسی حوالے سے بھی احسن قدم قرار نہےں دےا جا سکتا ۔اس قسم کے حکومتی فےصلوں کے خلاف اساتذہ اور طلباءمےں شدےد رد عمل کا پاےا جانا قدرتی امر ہے ۔اساتذہ ملک کی نظرےاتی اور اخلاقی اقدار کے محافظ ہوتے ہےں اور قوم کو ذہنی قےادت فراہم کرتے ہےں ۔ہم ترقی پذےر قوم ہےں اور اس کے ساتھ شاندار ماضی کے حامل بھی ہےں جس مےں اعلیٰ رواےات بھی ہےں اور اساتذہ کی بے پناہ عزت و احترام کی حکاےات بھی ۔خلےفہ ہارون الرشےد کی استاد کی عزت و منزلت والا کردار کس کو ےاد نہےں ۔اساتذہ کی پولےس کے ہاتھوں جو بے توقےری ہوئی ہے اور جس طرح ان کی عزت نفس مجروح کی گئی وہ کسی طور بھی قابل برداشت نہےں ۔عمائدےن حکومت اگر اساتذہ اور ملازمےن سرکار کی نمائندہ تنظےموں سے مکمل رابطہ کر کے باہمی گفت و شنےد سے کوئی راستہ نکالتے اور مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے تو شاےد اساتذہ کی اتنی بے توقےری نہ ہوتی ۔انہےں لہو لہان نہ ہونا پڑتا اور ان کے خلاف ےہ پر تشدد اور نا پسندےدہ مناظر دےکھنے کو نہ ملتے ۔اساتذہ اور ملازمےن کی نمائندہ تنظےموں کے عہدےداران کو مذاکرات کی مےز پر بٹھانا چاہئےے ۔اساتذہ کو ان کا جائز مقام دےا جائے جس کے وہ مستحق ہےں ۔علم تو پےغمبروں کی مےراث ہے اور ہم علم کے وارثےن ہےں مگر ہمارے ہاتھوں علم سکھانے والوں کا ےہ انجام باعث شرمندگی ہے ۔ہم بجائے تعلےمی مسائل کے حل کے انہےں مزےد الجھا رہے ہےں ۔اساتذہ کا احترام ہم سب پر واجب ہے ۔ہم مسلمان ہےں اور اسلام بھی ہمےں ان کے احترام کی تلقےن کرتا ہے لےکن ان پر لاٹھی چارج افسوسناک ہے ۔پاکستان کے 36فےصد عوام پہلے ہی ناخواندہ ہےں جو اپنے دستخط تک کرنے سے محروم ہےں اور پاکستان کے بےشتر مسائل کی وجہ ہی ناخواندگی ہے اور ہماری ہر حکومت کی اولےن ترجےحات تعلےم کا فروغ ہے ۔اگر ان تعلےمی اداروں کو کاروباری حضرات کی تحوےل مےں دے دےا گےا تو غرےب اور عام آدمی اس سے بہت متاثر ہو گا ۔ان اداروں مےں غرےب آدمی پر اپنے زےر تعلےم بچوں کی فےسوں کا بوجھ مزےد بڑھ جائے گا ،تعلےم مہنگی اور ان کی دسترس سے دور ہو جائے گی ۔دکھائی دےتا ہے تعلےمی اداروں کو پرائےوےٹ کرنے کےلئے ارباب حکومت ،اساتذہ کرام اور ےمےن و ےسار کے احتجاج کی پرواہ کئے بغےر اسے انجام تک پہنچانے کےلئے سر گرم ہےں ۔اس معاملے مےں وہ اس حد تک سنجےدہ ہےں کہ وہ اساتذہ کے احتجاج کو در خور اعتنا نہےں سمجھ رہے اور بتدرےج تعلےمی اداروں کو پرائےوےٹ کرنے اور نجی تحوےل مےں دےنے کا قصد عمد کئے ہوئے ہےں ۔جس معاشرے اور رےاست مےں تعلےم کے حصول کی راہ مےں معےشت اور ولدےت کی بنےاد پر امتےازی دےوارےں کھڑی کر دی جائےں اسے کسی بھی حوالے سے جمہوری رواےات کا حامل معاشرہ اور رےاست تصور نہےں کےا جا سکتا ۔دراصل ہم آئی اےم اےف اور ورلڈ بےنک کے اشارہ ابرو کے منتظر رہتے ہےں ۔ہم مقروض اےسے بے بس ہےں کہ اس کے حکم سے سر مو انحراف کی ہمت و جرا¿ت سے محروم ہےں ۔دوسرے نگران حکومت کو تو اس طرح کے بنےادی فےصلوں کا حق بھی حاصل نہےں جو اس کے مےنڈےٹ مےں شامل نہےں ۔
کالم
پنجاب مےں اساتذہ کی بے توقےری
- by web desk
- اکتوبر 18, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 908 Views
- 1 سال ago