پنجاب برصغیر کا وہ نمایاں ترین خطہ ہے جو تعلیم ، تنظیم اور تہذیب کے اعتبار سے ہمیشہ سر بلند اور دوسروں کےلئے ایک مثال رہا ہے ۔اگر یہ کہا جائے کہ پنجاب کی تعلیم ،تنظیم اور تہذیب نے انگریزوں کو بھی متحیئر کر دیا تھا تو کچھ غلط نہ ہو گااور آج اکیسویں صدی میں یہ حال ہے کہ؛ پنجاب میں تعلیم ،تنظیم اور تربیت کو منظم ریاستی سرپرستی میں ختم کرنے کےلئے پنجاب کی نگران حکومت کی غیر مجاز حکمت عملیوں کی تعمیل میں پولیس بھی حد درجہ سرگرم ہے۔جس پولیس کو کچے کے ڈاکو اغواہ کر لیتے اور سودے بازی کر کے چھوڑتے ہوں ،وہی پولیس تونسہ شریف کے اساتذہ (پروفیسر ،ہیڈ ماسٹرز اور دیگر اساتذہ)پر اپنے آئینی حقوق کے حق میں احتجاج کرنے پر ایف آئی آر کاٹ لیتی ہے۔اس کے بعد بعض اساتذہ کو گرفتار کیا جائے گا ،بعض روپوش ہو جائیں گے ،ہوگا کچھ بھی نہیں، سوائے اساتذہ کی تذلیل کے، سو ،حکومت کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے۔ لیکن اس عمل سے پنجاب پولیس کے سانولے رنگ پر مزید کالک ملی جائے گی کہ :اس نے اپنے شہر کے اساتذہ کا احترام نہیں کیا۔ویسے انگریزوں کو بھی پنجابی پولیس اور دیگر حربی اہلکاروں پر اسی لیے مان اور فخر رہا تھا( آج بھی ہے) کہ وہ دیئے گئے احکامات کی تعمیل کرتے وقت کچھ اور نہیں سوچتے تھے ۔ پنجاب کے ایسے ہی جفاکش اور جفا جو حربی اہلکاروں کے بل پر انگریزوں نے پہلی اور دوسری جنگ عظیم کامیابی سے لڑی بھی اور جیتی بھی تھی۔ اور احتیاطا ًبتائے دیتا ہوں کہ فلسطین کی سرزمین پر صیہونی دہشتگردوں کی ریاست قائم کرکے مسیحی بادشاہوں کے صدیوں تک زیر عتاب رہنے والے یہودیوں کو ان کے تاریخی محافظوں اور ہمیشہ پناہ دے کر یہودیوں کو محفوظ ومامون رکھنے والے یعنی مسلمانوں کے ساتھ دشمنی کا غیر مختتم سلسلہ شروع کرنے میں پنجاب ہی کے جفا جو حربی اہلکاروں کی انگریزوں کےلئے خدمات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔تو اس پس منظر کے ساتھ تونسہ شریف کے اساتذہ کو اپنی پگڑی اپنے ہاتھوں سے تھام کر اپنا احتجاج اور اپنی جدوجہد جاری رکھنی چاہیئے ۔ان بھلے لوگوں کے خلاف کاٹی جانے والی ایف آئی آر مستقبل کے مطالعہ پاکستان کے نصاب کا حصہ بنانا چاہئے ،ایف آئی آر سوشل میڈیا پر موجود ہے ،ڈھونڈ کر پڑھیئے اور سر دھنیئے ۔ ایف آئی آر کا لب لباب یہ ہے کہ 60/70 دیگر مرد و خواتین نا معلوم نے کلمہ چوک کو چاروں طرف سے بند کر کے روڈ بلاک کیا ہوا تھا۔ اور بذریعہ ایک مائیک پر گورنمنٹ پاکستان کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کر رہے تھے۔ جن کو ایسا کرنے سے بار بار منع کیا گیا لیکن مقررین مسلسل تقاریر کرتے رہے لہٰذا مندرجہ بالا مردو خواتین نے راستہ بلاک کر کے اشتعال انگیز تقریر کر کے اور ڈیک پر اونچی آواز کر کے ارتکاب جرم 341.6/5/15 16MPO دی پنجاب سانڈ مسلم ریگولیشن ایکٹ 2015 کا کیا ہے۔ تحریر ہذا بغرض اندراج مقدمہ ارسال تھانہ ہے۔ بعد اندراج مقدمہ نمبر مقدمہ سے آگاہی بخشی جاوے۔ اس دلچسپ ایف آئی آر سے پہلے ملتان کے ڈائریکٹر کالجز کا بھی ایک کارنامہ سامنے آ چکا ہے۔ ملتان کے یہ ڈائریکٹر آف ایجوکیشن (کالجز)جو کوئی بھی ہوں گے ، ان کا تعلیم و تدریس سے تعلق ضرور رہا ہوگا ۔پنجاب بھر میں سرکاری ملازمین مع اساتذہ کے،اپنے آئینی حقوق کو ایک غیر منتخب نگران حکومت کے غیر مجاز فیصلوں سے بچانے کےلئے احتجاج کر رہے ہیں،تو کیا ایسے میں ملتان یا پنجاب کے کسی بھی علاقے کے ڈائریکٹر ایجوکیشن کالجز کو یہ زیب دیتا ہے کہ اس احتجاج میں دلچسپی لینے پر کسی پروفیسر کو سخت تادیبی کارروائی کی دھمکی دے کر ایک روز کے اندر جواب طلب کیا جائے؟ میں اس خط میں مذکور پروفیسر صاحب کو نہیں جانتا،لیکن ان کا پروفیسر ہونا بجائے خود ارفع احترام کا تقاضا کرتا ہے۔ہو سکتا ہے کہ آپ کسی ذاتی مخاصمت کی بنا پر گرم لوہے پر چوٹ لگا کر اپنی تسکین کا سامان کرنا چاہتے ہوں؟ یا ایسا نہ ہو ،بلکہ آپ کواوپرسے اساتذہ کو ڈرانے دھمکانے کا حکم ملا ہو؟ دونوں صورتوں میں ڈائریکٹر ایجوکیشن کالجز ملتان کا یہ عمل نامناسب اور غیر منصفانہ ہے انہیں چاہیئے کہ فی الفور یہ دھمکی آمیز خط ، جو ایک معزز پروفیسر کے بنیادی انسانی حقوق اور عزووقار کے منافی بھی ہے ، واپس لیں ، اور حکام بالا کو رپورٹ کریں کہ وہ ملتان ڈویژن کے اساتذہ کو عبرت کا نشان بنانے کےلئے تیار نہیں ہیں۔استاد کا احترام اور وقار ہماری معاشرتی اقدار کے بچے کچھے ڈھانچے کے آخری ستون ہیں ،یہ ستون اگر مسمار ہو گئے تو ظلم کرنےوالوں اور ان کے آلہ کار بننے والوں کے سر پہ چھت اور پاو¿ں کے نیچے زمین نہیں رہے گی جب لوگ اجتماعی طور پر اپنے حقوق کےلئے جدوجہد کر رہے ہوں، انکا ساتھ دینا چاہئے ،ان کا احترام کرنا چاہیئے ،ان کی راہیں کشادہ کرنی چاہیں،اور اگر آپ کمزور ہیں ،تو ان کی کامیابی کی دعا کرنی چاہیئے۔ ملتان ڈویژن اور تونسہ شریف کے اساتذہ کےلئے میرا مشورہ یہ ہے کہ اس خط اور ایف آئی آر کو کسی ایک پروفیسر سے مخصوص سمجھنے کی بجائے ، ملتان ڈویژن اور تونسہ شریف کے سارے اساتذہ کے خلاف سمجھتے ہوئے ، اسے اور اس طرح کے دیگر خطوط اور ایف آئی آرز کو واپس لینے کو اپنے مطالبات کا حصہ بنائیں ۔ اگر یہ خط اور اس طرح کی ایف آئی آر واپس نہیں لی جاتی تو پھر ڈائریکٹوریٹ آف کالجز ملتان اور تھانہ سٹی تونسہ شریف کے سامنے پرامن قیام کیا جائے۔پرامن احتجاج ہر شہری کا بنیادی آئینی حق ہے اور حق ایک ایسی چیز ہے کہ جو اگر نہ مل رہی ہو تو وہ اس لیے چھین لینی چاہیئے ،کہ وہ آپ کی اپنی شے ہے۔