نگران وزیر اعظم پاکستان کے دورہ چین کو یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ انوارالحق کاکڑ کی ترجیح اول چینی سرمایہ کاروں کو ملک میں کاروبار کرنےکی ترغیب دلانا رہا ، مثلا بیجنگ میں نگران وزیر اعظم سے من میٹلزونگ ثوولیانگ اور چیرمین ایم سی جی چن جیانوانگ نے ملاقات کی، ملاقات میں چینی کمپنیوں کے اہم عہدیداروں نے پاکستانی میں کان کنی اور معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کے حوالے سے تفصیل سے تبادلہ خیال کیا ، قابل غور یہ ہے کہ مذکورہ دونوں کمپنیوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے گہری دلچیسپی ظاہر کی ، نگران وزیر اعظم کا ویثرن امداد لینے کی بجائے دوست ممالک سے تجارت بڑھانا ہے ، انوارالحق کاکڑ نے یہی پیغام اقوام متحدہ میں اسلامی وغیر اسلامی ملکوں کے سربراہان مملکت سے ملاقاتوں کےموقع پر دیا، انوار الحق سمجھتے ہیں کہ تیزی سے تبدیل ہونے والی اس دنیا میں وہی ممالک قوموں کی صف میں خود کو نمایاں کرسکتے ہیں جو بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر اپنے ہاں تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دیں ، انوارالحق کے بیانات اورانٹرویوز اس سچائی سے پردہ آشکار کرتے ہیں کہ عالمی سطح پر معیشت ہی سیاست پرغالب ہے ، نگران وزیر اعظم باخوبی آگاہ ہیں کہ آئینی طور پر ان کی زمہ داری ملک میں عام انتخابات کا انعقاد کروا کر اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کے سپرد کرنا ہے مگر یہ سچائی بھی ان کی نظروں سے اوجھل نہیں کہ جب تک وہ منصب پر موجود ہیں ایک ایک منٹ ملکی تعمیر وترقی پر صرف کرنا چاہے ، بجینگ میں انوارالحق کاکڑ نے چائنہ کمیونیکیشنز اینڈ کنسڑیکشن کمپنی کے سی ای او وانگ ہائی ہوائی اور چیرمین چائنہ روڈ برج کارپوریشن سے بھی ملاقات کی ، مذکورہ ملاقات کا مقصد سی پیک کے تحت پاکستان میں جاری منصوبوں بارے تبادلہ خیال کرنا تھا ، اس پیش رفت کا فوری طور پر فائدہ یہ ہوا کہ مذکورہ دونوں کمپنیوں کے سربراہان نے پاکستان میں انفراسڑکچر کی تعمیرسمیت قابل تجدید توانائی اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچیسپی ظاہر کر دی ، سی پیک کے حوالے سے پاکستان اورچین میں قریبی تعلقات اب کوئی راز نہیں، منصوبہ کی اہمیت کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں مختلف جماعتوں کی حکومتیں آتی جاتی رہیں مگر اس اہم منصوبے کو جاری وساری رکھا گیا ، اگرچہ یہ تاثر موجود ہےکہ پاکستان تحریک انصاف کے دور اقتدار میں کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی شکل میں ان منصوبوں کی رفتار میں کچھ فرق پڑا مگر پھر پی ڈی ایم دور حکومت میں اس میں تیزی لائی گی ، نگران وزیر اعظم سی پیک کے حوالے سے واضح موقف رکھتے ہیں، قابل تحسین یہ ہے کہ وزارت عظمی کا منصب سنبھالنے سے پہلے بھی انوار الحق کاکڑ بلوچستان کی تعمیر وترقی میں سی پیک کے کردار کے قائل تھے ، بطور نگران وزیر اعظم پاکستان وہ ایک سے زائد مرتبہ کہہ چکے کہ اگر سی پیک مقررہ مدت کے اندر فعال ہوجاتا ہے تو پاکستان کو درپیش چیلنجز پر بڑی حد تک قابو پا لیا جائے گا ، سی پیک منصوبے میں گوادر بندرگاہ کی اہمیت وافادیت کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے، اس ضمن میں نگران وزیر اعظم کا بیان موجود ہےکہ گوادر کو جدید بندرگاہ بنانے کے منصوبے میں کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا، خوش قسمتی کے ساتھ خود وزیر اعظم کا تعلق بھی بلوچستان سے ہے لہٰذا رقبے کے اعتبار سے ملک کے سب سے بڑے صوبے کی مشکلات سے وہ باخوبی آگاہ ہیں۔ دورہ چین میں وزیر اعظم پاکستان کی چینی صدر شی جنگ پی سے ملاقات کو بھی کلیدی اہمیت دی جارہی ہے ، انوارالحق کاکڑ نے بیجنگ میں تیسرے ایک خطہ ایک شاہراہ کے فورم کے موقعہ پر عظیم عوامی ہال میں چینی صدر سے بات چیت کی ، انوارالحق کاکڑ نے تیسرے ایک خطے ایک شاہراہ فورم کے کامیاب انعقاد پر چینی صدر کی کاوشوں کو سراہا ، اس موقعہ پر دونوں رہنماوں نے ہر آزمائش پر پوری اترنے والے پاک چین دوستی کو مذید مضبوط بنانے کا اعادہ کیا، صدر شی کا کہنا کلیدی اہمیت کا حامل ہے کہ پاکستان قابل اعتماد دوست ، آہنی بھائی اور امن وترقی میں شراکت دار ہے ، صدر شی نے یہ بھی کہا کہ چین کی خارجہ پالیسی میں پاکستان کو خصوصی اہمیت حاصل ہے ، پاکستان کی خودمختاری ، علاقائی سالمیت اور ترقی کے حوالے سے حمایت جاری رکھیں گے ، ” اس موقعہ پر انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ پاکستان علاقائی روابط کے فروغ اور اپنے عوام کی سماجی ومعاشی ترقی کے لیے چین کے ساتھ مل کر کام کرتا رہے گا، "بلاشبہ چین پاکستان دوستی کسی خاص ملک ، خطے یا قوم کے خلاف نہیں ، اس کے برعکس دونوں ممالک علاقائی ہی نہیں عالمی سطح پر ایسے حالات پیدا کرنے کے خواہاں ہیں جس کے نتیجے میں کراہ ارض پر بسنے والا ہر شخص امن ، ترقی اور خوشحالی سے مستفید ہو، اس میں دوآرا نہیں کہ سی پیک کو لے کر بھارت کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہےجسے غیر جانبدار مبصرین مبالغہ آرائی قرار دیتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ دنیا گلوبل ویلج بن چکی لہذا تن تنہا تعمیر وترقی کی منازل طے کرنا کسی ایک ملک کے لیے مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہوچکا ، یہی وہ حقیقت ہے جس دورہ چین کے دوران نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے واشگاف الفاظ میں بیان کیا اور جسے دوست ملک نے دل کی گہرائیوں سے سراہا۔