ہم بیس سال سے آہ و بکا کر رہے ہیں کہ ضد چھوڑو اور کالا باغ ڈیم پر فوری طور پر کام شروع کرا¶۔ لیکن ہر دور کے۔بے حس حکمرانوں کے کانوں پر جوں ہی نہیں رینگتی۔ جو آیا اس نے کالا باغ ڈیم پر گندی سیاست کی، اسے شجر ممنوعہ قرار دیا، خود بھی ڈرتے اور قوم کو بھی ڈراتے رہے اور آج حالت یہ ہے کہ مختلف ذرائع سے حاصل شدہ بجلی کا مجموعی نرخ۔قومی بدمعاشی۔کی بدولت اب ساٹھ روپے سے بھی اوپر جا چکا ہے۔ لوگ بھاری بھرکم بجلی کے بلوں کی وجہ سے میٹر کٹوا رہے ہیں، تاجر سڑکوں پر، کارخانے بند اور یہاں تک کہ کچھ لوگ تو بالکل مایوس ہو کر خود کشیوں پر بھی مجبور ہو چکے ہیں۔ عام آدمی جائے تو جائے کہاں، پہلے ایک اصطلاح ۔ لائف لائن۔ صارفین کی ہوتی تھی، وہ اب واپڈا کے اندھے۔پالیسی سازوں۔ نے چھوڑی ہی کہاں ہے۔بڑی چالاکی سے پرانے میٹر جو،دراصل صحیح طور پر کام کر رہے تھے، انہیں اچانک تبدیل کر کے وہ میٹر لگا دئے جو بجلی استعمال نہ بھی کی جائے تو رات دن رواں دواں رہتے ہیں۔ اتنی۔ٹیکنیکل بے ایمانی۔ کی گء ہےکہ لوڈ آن نہ بھی ہو تو صرف ارتھ کے سہارے بجلی کے نئے میٹر گھومتے رہتے ہیں اور ایک عام گھر کا میٹر جو دو چار سال پہلے چالیس،پچاس یونٹ چارج کرتا تھا وہ اس ۔چالاک مکینیکل فراڈ۔ کی وجہ سے اب دو سے تین سو کے درمیان ریڈنگ پہنچا کر ہی دم لیتا ہے۔ باقی کسر واپڈا کے بے ایمان میٹر ریڈرز نکال دیتے ہیں جو اکثر 30 یوم کی عمومی ریڈنگ 10 سے 15 روز کی تاخیر سے میٹروں کے جعلی فوٹوز بنا کر ماہوار صرف شدہ یونٹس کو اگلے سے اگلے سلیب میں ڈال دیتے ہیں جس سے ہزاروں کا اضافی بل عام صارفین کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔توانائی کے بحران کو اگر دیکھیں تو گزشتہ تیس سالوں سے اس ملک کو جتنا نقصان اس ملک کو اسکے صاحب اقتدار طبقے نے دیا ہے دوسرے کسی دشمن سے دشمن نے بھی شاید نہیں دیا ہو گا۔ ملکی مفاد کے اس اہم ترین منصوبے کو یہ ظالم کبھی بم مار کر اڑانے کی دھمکیوں سے روکتے رہے اور کبھی لانگ مارچ کی گیدڑ بھپکیاں کے زور پر اسکے خلاف ڈٹ گئے۔ جنرل ضیاءالحق مرحوم کے دور میں اس پر خاطر خواہ کام ہوا لیکن اسکو بھی اسی مافیا اور اسکے سہولت کاروں نے راستے سے ہٹا کر دم لیا۔ بعد کے جمہوری دور تو اس منصوبے کے سرے سے ہی خلاف تھے۔ جنرل مشرف مرحوم وکٹ سے باہر نکل کر کھیلتا تھا،، اس نے تھوڑی ہمت دکھانے کی کوشش کی تو اسی کے ساتھ چمٹے۔جمہوری بازیگروں۔نے اسے بھی ڈرانا،بلیک میل کرنا شروع کر دیا کہ ” تسی جنرل صاحب اس پنگے وچ نہ پوو”۔ عمران خان بھی یہ کام کر سکتا تھا لیکن ناتجربہ کاری اور کمزور ٹیم کی وجہ سے وہ بھی بلیک میلنگ کا شکار ہو کر یہ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ ”اس سے ملک ٹوٹ جائے گا” دیکھیں کتنا خوف اور دہشت اس ڈیم مخالف مافیا نے کھڑا کیا ہوا جو مبینہ طور پر اربوں ڈالر کھا کر اس نہایت ہی آسان اور اہم منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اپنے ہی ملک میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ راقم نے عملی جدو جہد کے ذریعے اس منصوبے پر فوری کام کے سلسلہ میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں سال 2010 میں ایک پٹیشن دائر کی جو بلاآخر اس جیسی دیگر درخواستوں کے 2018 میں چیف جسٹس جناب ثاقب نثار صاحب کی سربراہی میں ایک پانچ رکنی بینچ میں سنی گئی جسکے نتیجے میں بھاشا اور مومند ڈیم پر تو فوری کام کے آغاز کا حکم جاری کردیا گیا لیکن اس معزز عدالت نے کالا باغ ڈیم کے مسئلہ کو پھر سے پس پشت ڈال کر ان چند الفاظ کو مجھ جیسوں کی تسلی کے لئے کافی سمجھا کہ چونکہ کالا باغ ڈیم ایک متنازعہ ایشو ہے اس پر پہلے رائے عامہ ہموار کی جائے گی اور پھر بعد میں اس پر بھی کام کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔ چلیں دیکھتے ہیں وہ گھڑی کب ہم اپنی زندگی میں دیکھیں گے کیونکہ اسکی بلاوجہ سیاسی مخالفت کچھ اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ فی الحال یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ “نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی“دیکھا جائے تو ڈیم مخالف لوگ خواہ مخواہ کی ضد پر قائم ہیں۔ ان کے دلائل بودے اور بے وزن ہیں۔ کئی بار سمجھانے، اوپن ڈیبیٹ کی آفر کی جا چکی ہے۔ہمارے دوست سلمان خان چیئرمین سندھ طاس کونسل شہر شہر گھوم کر سمجھاتے رہے، لیکن جب کوءاپنی ضد اور انا کی تسکین میں کسی مسئلے کو سننے سمجھنے کو تیار ہی نہیں تو پھر ظاہر ہے سب کاوشیں لاحاصل اور بے کار ہی جاتی ہیں۔ ہمارے اکثر حکمران خود غرض،ڈرپوک اور ڈنگ ٹپا¶ پالیسی پر یقین رکھتے ہیں جنکا اولین مقصد اپنے اقتدار کو طول دینا، مال بنانا، آل اور اپنی کھال بچانا رہا ہے۔جو ہمیشہ نہایت ہی فضول اور بے کار قسم کے۔۔۔ووٹ بنا¶ قسم۔۔۔ کے پراجیکٹ بنا کر قومی خزانہ لٹاتے رہتے ہیں۔ لہٰذا،،، کون انہیں سمجھائے کہ کالا باغ ڈیم پر نہایت ہی کم عرصے میں کام دوبارہ شروع ہو سکتا ہے جو ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ کوئی لمبے چوڑے فنڈز کی بھی ضرورت نہ تھی انکی متعصب کھوپڑیوں میں کون یہ بات ڈالے کہ یہ بلاوجہ سیاست زدہ پراجیکٹ چھ ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کے ساتھ ساتھ فوری طور پر 3600 میگا واٹ سستی ترین پن بجلی بھی ہمارے نیشنل گرڈ کو مختصر عرصہ میں فراہم کر سکتا تھا اور جسکی استعداد کار بڑھاءبھی جا سکتی تھی۔ کون انہیں بار بار سمجھائے کہ نوشہرہ ڈوبنے کے۔بے تکے مفروضے۔کی بجائے سب سے زیادہ فائدہ ہی۔کے پی کے۔ کو ڈیرہ اسماعیل خان کی طرف سے پہنچے گا ، جہاں لاکھوں ایکڑ بنجر زمین قابل کاشت ہو گی۔ سندھ کے خدشات بھی خدشات برائے خدشات ہی ہیں۔ ہمارے سندھی بھائی بجائے اسے ہمیشہ کے متنازع رکھنے کے اس پر اگر بیٹھ کر بات کریں تو ہو سکتا ہے کہ اتفاق رائے ہو جائے، بلوچستان کبھی کھل کر اسکی مخالفت میں نہیں آیا بلکہ مجھے یقین ہے کہ بلوچستان اس بحران کے بعد کالا باغ ڈیم کے حق میں ووٹ دے گا۔ پن بجلی اور اس جیسے دیگر متبادل سستے ترین ذرائع توانائی دراصل ہمارے ملک کے تابناک مستقبل،تیز رفتار ترقی اور اسکے عوام کی خوشحالی کے ضامن ہیں، لیکن اسکے بجائے ہم آءپی پیز، رینٹل پاورز اور مہنگے ترین ڈیزل سے بجلی کے معاہدے کرتے رہے جنہوں نے ہمیں ایسے ایسے معاہدوں میں جکڑا ہوا ہے کہ ہم کمبل کو اگر چھوڑنا بھی چاہیں تو کمبل ہمیں نہیں چھوڑتا۔ اسکے زمہ دار کون ہیں؟؟؟ ظاہر ہے اسوقت کے کرپٹ اور نااھل حکمران! جن کا اپنا تو کچھ نہیں ڈوبا لیکن وقت نے آج ثابت کر دیا ہے کہ انکی غلط پالیسیاں اور مہنگے معائدے اس قوم کو لے ڈوبے ہیں۔ ثمر مبارک مند محسن پاکستان کا ایک دکھ بھرا کلپ سننے کو ملا۔ فرما رہے تھے کہ جب ہم نے حکومت وقت کو یہ خوشخبری سنائی کہ ہم کوئلے سے سستی بجلی پیدا کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں تو اسوقت کے پلاننگ منسٹر جناب احسن اقبال نے بجائے شاباش یا حوصلہ افزائی کے جو سب سے پہلا کام کیا وہ ہمارے فنڈز روکنے کا حکم تھا۔ قارئین محترم جب ہمیں اس قسم کے موسمی افلاطون اور ڈنگ ٹپا¶ ارسطو ،پلاننگ,جیسے شعبہ میں سربراہ کی حیثیت میں ملیں گے تو ہم کیوں نہ اپنی بربادی کا ماتم کریں،کیوں نہ ہم اقوام عالم میں ایک بھکاری کی صورت میں کھڑا نظر آئیں۔ اسلئے وقت کا تقاضہ ہے کہ حکمران آنکھیں کھولیں، موجودہ کئیر ٹیکرز حکمران نہیں جو اتنے کمزور اور بے حس ہیں کہ سوال کیا گیا کہ ملک کا بہترین ٹیلنٹ ملک کوچھوڑ کر روزانہ باہر جا رہا ہے تو بے شرمی سے جواب دیا” تو پھر کیا ہوا” میرا اشارہ آنےوالی منتخب حکومت سے ہے کہ بلاوجہ کے بے بنیاد سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر فوری طور پر کالاباغ ڈیم پر کام کا آغاز کروائیں تاکہ ہم اس برے وقت سے بچ سکیں جب ایسی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے خدا نخواستہ ہم ایک ایک بوند پانی اور ایک ایک واٹ بجلی کو ترسیں گے۔