کالم

بھارت میں انسانی حقوق کی صورتحال پر امریکی تشویش

بھارت میں انسانی حقوق کی صورتحال پر امریکی کانگریس کمشن نے انسانی حقوق کے حوالے سے بھارت کو خصوصی تشویش کا ملک قرار دینے کی سفارش کر دی۔ ماہرین نے کمشن کے سامنے گواہی دی کہ بھارت میں مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بھارت میں اقلیتوں کے خلاف قوانین کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ رکن کانگریس سٹیفن شینک نے کہا کہ بھارتی حکومت کے قوانین مذہبی اقلیتوں کے خلاف استعمال کئے جاتے ہیں۔ مذہبی آزادی کمشن بھارت کو خصوصی تشویش کا ملک قرار دینے کی سفارش 2020ءسے کر رہا ہے۔ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس تناظر میں بات اب بھارت کو خصوصی تشویش کا ملک قرار دینے سے آگے جا چکی ہے۔بھارت دنیا کے ان ممالک میں شامل اور سر فہرست ہے جہاں اقلیتوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک کیا جاتا ہے اور ان کے خلاف قوانین کا غلط استعمال بھی معمول بن چکا ہے۔ بھارت اپنی پہچان سیکولر انڈیا کے حوالے سے کرواتا رہا۔حالانکہ شروع سے ہندو شدت پسندی بھارت میں موجود رہی۔مودی حکومت اس کو انتہاو¿ں تک لے گئی۔جس طرح کے قوانین بنائے گئے اور قوانین کا غلط استعمال کیا گیا اور جو کچھ عملی طور پر بھارت میں اقلیتوں کے خلاف ہوتا ہے اب صرف بھارت کو سرکاری طور پر شدت پسند ریاست ڈکلیئر کرنے کی کمی رہ گئی ہے ۔ بھارت میں گرجا گھروں اور مساجد کو جلایا اور مسمار کر دیا جاتا ہے۔ بابری مسجد کی جگہ شدت پسند نظریات کی وجہ سے رام مندر بنا دیا گیا۔مسلمانوں،سکھوں اور عیسائیوں کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبورکیا جاتا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ بھارتی حکومت کی طرف سے کیا کچھ نہیں ہوتا اس سے عالمی برادری کی آنکھیں بند ہیں۔ بھارت کے ظلم کا ہاتھ روکنے اور اقلیتوں کے تحفظ کے لیے اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو اپنا کردار ادا کرتے ہوئے بھارت پر دفاعی اقتصادی اور ہر قسم کی پابندیاں عائد کرنا ہونگی۔پاکستان ہر عالمی فورم پر بھارت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بے نقاب کرتا چلا آرہا ہے‘ جبکہ عالمی رپورٹیں بھی اسے بے نقاب کر چکی ہیں‘ پھر عالمی قیادتوں کی نظروں سے بھارت کی یہ خلاف ورزیاں کیوں اوجھل ہیں؟ ان کی مجرمانہ خاموشی بھارت کے مزید حوصلے بڑھا رہی ہے۔ امریکی کمیشن کے سامنے ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں کے نمائندوں نے بھارت میں انسانی حقوق کی سنگین پامالی، مذہبی عدم برداشت، اقلیتوں پر ظلم و جبر، میڈیا و انٹرنیٹ پر پابندی، جنسی تجارت اور انسانی حقوق سے متعلقہ دیگر سنگین خلاف ورزیوں پر شہادت دی۔کمیشن کو بتایا گیا کہ بھارت میں مسلمانوں اور اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے اور مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کے خلاف قوانین کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ اکثر مسائل کی وجہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی بھارتی سیکولر جمہوریت سے تبدیل کرکے اسے ہندوتوا بنانے کی کوشش ہے۔ اگر انسانی حقوق کی پامالیوں کے حوالے سے مسائل کا حل نہ کیا گیا تو بھارت کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔ بین الاقوامی مذہبی آزادی کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کی 13 ریاستوں میں مذہب کی تبدیلی پر پابندی عائد کی گئی ہے، جو بنیادی انسانی حق کی خلاف ورزی ہے۔ متعدد رپورٹس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد کو اجاگر کیا گیا ہے۔ رپورٹس سے واضح ہے کہ بھارت میں مسلمان اور مسیحی کمیونٹی سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) کے سٹیفن شنیک نے اس بارے میں بات کی کہ کس طرح بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت اقلیتوں کے خلاف تشدد کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔انہوں نے شہریت ترمیمی ایکٹ، تبدیلی مذہب مخالف قوانین اور گائے ذبیحہ پر نظر رکھنے والے گروہوں کا بھی حوالہ دیا۔بھارت کی جانب سے ملک سے باہر تشدد بشمول کینیڈین شہری ہردیپ سنگھ نجر کے قتل اور امریکی شہری گروپتونت سنگھ پنن کے قتل کی کوششوں کا بھی حوالہ دیا۔گواہوں نے بھارت میں انسانی حقوق کے مسائل پر بات کی اور حکمران جماعت کے خلاف اختلاف رائے کو دبانے اور قوانین کو بطور ہتھیار استعمال کرنے پر سوال اٹھائے۔جان سیفٹن نے انڈیا کے نیشنل رجسٹری آف سٹیزنز اور سٹیزن شپ ترمیمی ایکٹ کے اطلاق پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اس تشویش کا اظہار کیا کہ شہریوں پر ثبوت کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے اور یہ کہ لوگ اب یہ ثابت کرنے کے ذمہ دار ہیں کہ وہ بھارت کے شہری ہیں۔بھارت انسداد دہشت گردی کے لیے ملنے والے فنڈز کا غلط استعمال کر رہا ہے‘ اور اسے ’انسانی حقوق کے کارکنوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔امریکی رکن کانگریس الہان عمر نے بھارت میں مسلمانوں او مسیحیوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک اور پنجاب کی صورت حال کے ساتھ ساتھ سکھوں کی صورت حال پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے