لاہور کے ایک ہوٹل میں چند پارلیمنٹیرینز کے ساتھ بیٹھک ہوئی، دوران میٹنگ اُن میں سے ایک نے ممبر ان اسمبلی اور سینٹ کی تربیت کی بات کی۔ انھوں نے بتایا کہ پہلی مرتبہ منتخب ہونے والے ممبران بہت سی چیزوں سے لاعلم ہوتے ہیں،نئے ممبران کو معلوم نہیں ہوتا ہے کہ کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے؟ممبران طریقہ کار، فرائض اور دیگر معاملات کے بارے میں جانکاری نہیں رکھتے ہیں،اس لیے پارلیمنٹیرینز کی تربیت ہونی چاہیے۔اس پر مزید تحریر کرنے سے قبل آپ کے ساتھ دو واقعات شیئر کرنا چاہتا ہوں ،گو کہ واقعات کا تعلق اس سے براہ راست نہیں لیکن ان کا تربیت سے ناتا ضرورہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان سرکاری دورے پر ترکی گئے تھے تو اس دورے کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں ترکی کی حکومت کے سربراہ کے ساتھ میٹنگ میںپاکستانی وفد کے شرکاءمیں کوئی اونگھ رہا ہے، کسی نے پاﺅں پر پاﺅں رکھا ہے،کوئی موبائل سیٹ کے ساتھ کھیل رہا ہے،ان کا یہ سب کچھ نجی ،سرکاری اور سفارتی میٹنگ کے آداب کے خلاف تھا، وفد میں ترتیب نام کی کوئی چیز نہیں تھی جبکہ ترکی کے وفد کے شرکاءسیدھی لائن میں بیٹھے ہمہ تن گوش تھے حتیٰ کہ اُن کے پاﺅں اور جوتے بھی ترتیب کے ساتھ تھے۔پاکستانی وفد کی ادائیوںسے عیاں ہوا کہ یہ کسی ملک کے سربراہ یا محفل کے آداب بھی نہیں جانتے۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو امریکہ کے اولین دورے پر جارہے تھے تو انھوں نے امریکہ وفد میں شامل وزراءاور دیگر ارکان کےلئے دعوت کا اہتمام کیا اور انھوں نے سب شرکاءکے کھانے کے آداب، طور طریقوں اور انداز کا خود جائزہ لیا۔ کھانے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے وزراءاور ارکان پارلیمنٹ کو بتایا کہ آپ امریکہ جارہے ہو، وہاں آپ کو سرکاری ضیافتوں میں مدعو کیا جائے گا۔ آپ کھانے کے دیگر آداب کے ساتھ ساتھ چھری، کانٹے اور چمچے سے کھانے کا طریقہ بھی سیکھیں۔ چھری، کانٹے اور چمچے سے کھانے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ چھری، کانٹے اور چمچے کے استعمال کی آواز آپ کے ساتھ بیٹھے فرد تک نہ جائے۔اسی طرح لباس کے معاملے میں بھی احتیاط کریں، کونسے پتلون کے ساتھ کونسا جوتا پہننا چاہیے۔ان دو واقعات سے ثابت ہوا کہ ملاقات ، میٹنگ ، محفل اور کھانے پینے کے آداب ہوتے ہیں، ان کا خصوصی خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ سرکاری یاکسی کمپنی کا وفد یا کسی این جی او کی ٹیم کو میٹنگ یا محفل میں جانے سے قبل سب سے پہلے اپنے بالوں اور جسم کے دیگر اعضاءکی صفائی کا خیال رکھنا چاہیے،ان کے کپڑے اور جوتے مناسب ہوں،کس پتلون کے ساتھ کونسا جوتا ہونا چاہیے، شلوارقیمض میں بھی یہی خیال کرنا چاہیے، شلوار کے ساتھ پاﺅں میں جوگر وغیرہ نہ پہنیں،شرٹ پتلون اور شلوار قیمض کو بھی دھیان میں رکھیں۔پرفیو م لگانے میں احتیاط کریں، خوشبودھیمی ہونی چاہیے اور چہرے پر میک اپ یا کریم وغیرہ بھی ہلکا لگائیں ۔ ملاقات کےلئے طے شد ٹائم پر پہنچیں ، مختصر اورکم الفاظ کے ساتھ جامع اور مدلل گفتگو کریں، ملاقات کا مقصدبیان کریں، دوران میٹنگ بامعنی اور بامقصد گفتگو کریں، غیر ضروری اور غیر متعلقہ باتوں سے قطعی پرہیز کریں، بات کرتے ہوئے زیادہ منہ نہ کھولیں، زور زورسے باتیں نہ کریں ،کہ سامع کو آپ کی باتیں ناگوار نہ گذرے، آہستہ اور آرام سے بات کریں تاکہ سننے والے کو آپ کی بات کی سمجھ آجائے۔ میٹنگ میں صرف خود نہ بولیں بلکہ دوسروں کو بات کرنے کا موقع دیں اور دوسروں کی باتیں بھی توجہ کے ساتھ سنیں۔ آپ درج بالا آداب کا خیال رکھیں گے تو آپ کی میٹنگ کے مثبت اثرات ہونگے اور اس کے نتائج بھی دور رس ہونگے۔اب معزز ممبراسمبلی کی بات کی طرف آتے ہیں کہ بلاشبہ صوبائی ، قومی اسمبلی یا سینٹ کے ممبران کے انتخاب کے بعد ان کی تربیت ضروری ہے۔ حلف سے قبل یا بعد میں پارلیمنٹیرینزکی اخلاقی، قانونی اورپیشہ وارنہ تربیت ناگزیر ہے۔اُن کو آئین و قانون کے بارے میں علم ہونا چاہیے ۔ اُن کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کو اسمبلی یا سینٹ میں کیا کردار ادا کرنا چاہیے۔ تربیت نہ ہونے سے بڑی تعداد میں ممبران پارلیمنٹ صرف آتے اور جاتے ہیں ۔بعض ایسے ممبران ہیں جو دو تین مرتبہ منتخب ہوئے ہیں لیکن پانچ، دس یا بارہ سالوں میں پارلیمنٹ میں ایک بات بھی نہیں کی ہے۔ ایسے ممبران کا منتخب ہونے کا کوئی فائدہ ہی نہیں ہے بلکہ ایسے ممبران پارلیمنٹ اور علاقے کی بدنامی کے باعث ہوتے ہیں ۔ ایسے ممبران کا قانون سازی میں کوئی کردار نہیں ہوتا ہے، ایسے ممبران ملک پر بوجھ ہوتے ہیں لیکن ساری غلطیاں اُن کی بھی نہیں ہوتی ہیں بلکہ اس میں پارٹی اور سسٹم کا بھی قصور ہے۔ سیاسی پارٹیاں اپنے ٹکٹ ہولڈر یا منتخب ممبران کی تر بیت کا اہتمام نہیں کرتی ہیں۔ سیاسی پارٹیوں میں چند لوگوں کی چودھراہٹ ہوتی ہے، وہ نہیں چاہتے ہیں کہ ان کے پارٹی کے نئے ممبران کی تربیت ہو۔وہ سمجھتے ہیں کہ نئے ممبران کی تربیت ہوگئی تو ان کی چودھرہٹ ختم ہوجائے گی ، حالانکہ ایسی بات نہیں ہے ۔ پرانے سیاست دانوں کو نئے ممبران کو سیکھنے کا موقع دینا چاہیے تاکہ نئے ممبران پارلیمنٹ میں مثبت اور بہترین کردار ادا کرسکیں۔ایک چیز اور دیکھی گئی ہے کہ پارٹیوں کے مخصوص افراد بولتے رہتے ہیں، ان کا ایک مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ پارٹی کے سربراہ کا منظور نظر رہیں،نئے ممبران کو اجلاس میں بولنے کا موقع دینا چاہیے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ان تمام مسائل کا حل یہ ہے کہ صوبائی ، قومی اور سینٹ کے ممبران کو منتخب ہونے کے بعد کم وبیش تین دن ، ہفتہ ، دس دنوں کی تربیت سیشنز ہونے چاہییں، اس کے بعد ہرچھ مہینے یا سال کے بعد بھی تربیت سیشنز کا انعقاد کرنا چاہے۔ پارلیمنٹیرینز کے تربیت کے سلسلے میں این جی اوز کو کردار ادا کرنا چاہیے۔این جی اوز صاف و شفاف الیکشن کےلئے رول ادا کررہی ہیںتو الیکشن کے بعد بھی ان کو کردار ادا کرنا چاہیے۔ این جی او ز کو پارلیمنٹیرینز کی تربیت کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ پارلیمنٹیرینزکی تربیت سے وہ قانون سازی میں مثبت اور بہترین رول ادا کرسکیں