اداریہ کالم

دھمکی آمیز خطوط ،معاملے کی تہہ تک پہنچا جائے

اب تو معاملات اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ چیف جسٹس آف پاکستان اور لاہور ہائیکورٹ کے ججز کو بھی دھمکیاں آمیز خطوط ملنا شروع ہوگئے ہیں ،اب اس بات کی حقیقت کیا ہے یہ بات اللہ بہتر جانتا ہے مگر جب اعلیٰ عدالتوں کے ججز بھی محفوظ نہیں پھر عام مخلوق کا کیا حال ہوگا ، بہر حال اس واقعے کی فوری انکوائری ہونا مقصود ہے ، چیف جسٹس پاکستان سمیت سپریم کورٹ اور لاہور ہائیکورٹ کے ججزکو بھی دھمکی آمیز خطوط موصول ہوگئے۔ڈی آئی جی آپریشنز شہزاد بخاری اس معاملے پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوئے جہاں انہوں نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے چار ججز کو بھی اسی طرح کے خطوط ملے ہیں،فرانزک معائنے کے لیے بھجوا دیے ہیں، تین سے چار دن میں رپورٹ آ جائے گی۔ اسٹیمپ نہیں پڑھیں جارہی، جی پی او میں پوسٹ نہیں ہوا کسی لیٹر باکس میں ڈالا گیا ہے ہم اس لیٹر باکس کی سی سی ٹی وی اور ایریا کی معلومات حاصل کر رہے ہیں اور تحقیقات کے لیے کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔ دھمکی آمیز خطوط چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس شاہد وحید، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے نام لکھے گئے ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ کے 3 ججز کو دھمکی آمیز خطوط موصول ہوئے ہیں۔ یہ خطوط سینئر ترین جج جسٹس شجاعت علی خان، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس عابد عزیز شیخ اور جسٹس عالیہ نیلم کے نام بھجوائے گئے ہیں۔لاہور ہائیکورٹ کے چاروں ججوں کو خطوط موہد فاضل ولد منظور علی شاہ کے نام سے بھجوائے گئے ہیں۔اطلاع ملتے ہی سی ٹی ڈی ٹیم اور ڈی آئی جی آپریشن ناصر رضوی سمیت پولیس افسران لاہور ہائیکورٹ پہنچ گئے اور عدالت کی سکیورٹی مزید سخت کردی گئی۔ خط ایک نجی کوریئر کمپنی کا ملازم ہائیکورٹ لے کر آیا تھا جو اس نے ججز کے اسٹاف ریسیو کروایا۔کوریئر کمپنی کے ملازم کو گرفتار کر لیا گیا اور اس سے تفتیش کی جارہی ہے۔ وفاقی پولیس نے ججز کو ملنے والے دھمکی آمیز خطوط کا مقدمہ تھانہ سی ٹی ڈی میں سپریم کورٹ کے اہلکار کی مدعیت میں درج کرلیا، دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز کے خط پر ازخود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ نے فل کورٹ بنانے کا عندیہ دے دیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدلیہ کی آزادی کے لیے ہماری زیرو برداشت پالیسی ہے ، عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہو گا تو سب سے پہلے میں اور میرے ساتھی کھڑے ہونگے،ہم نے انتہائی چستی کیساتھ خط ملتے ہی کام شروع کیا، اگر کسی کا کوئی اور ایجنڈا ہے تو پھر وہ صدر سپریم کورٹ بن جائے، ہم کسی کا دبا وبرداشت نہیں کریں گے، ہم نے وزیراعظم سے ملاقات انتظامی طور پر کی ،سپریم کورٹ ایک آئینی عدالت ہے، ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے، ہوسکتا ہے پہلے یہ ادارہ آئین کے خلاف کام کرتا رہا ہو، سپریم کورٹ نے کمیشن بنائے ہیں لیکن یہ آئینی اختیار نہیں ہے، آئین پاکستان نے کمیشن کی تشکیل کا اختیار وفاقی حکومت کو دے رکھا ہے، کمیشن تشکیل دینے کا اختیار سرکار کو حاصل ہے، ،جسٹس منصور نے ریمارکس دئیے کہ ہم شتر مرغ کی طرح ریت میں گردن چھپا کر اس اہم معاملے سے نہیں بچ سکتے، ایک سول جج پر دباو¿آئے تو اسے کیسے محفوظ کرنا ہو گا یہ سنجیدہ معاملہ ہمیں حل کرنا ہو گا،جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ پتا ہونے کے باوجود سب تاثر دے رہے کچھ نہیں ہو رہا۔ ہم نے انتہائی چستی کیساتھ خط ملتے ہی کام شروع کیا، جیسے ہی خط ملا رمضان میں افطاری کے بعد ہائی کورٹ ججز سے ملاقات کی جس میں جسٹس منصور علی شاہ بھی شریک تھے،ہم رمضان کے بعد بھی ملاقات کر سکتے تھے لیکن اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ملاقات کی، چیف جسٹس پاکستان بننے کے بعد پہلے ہی دن فل کورٹ میٹنگ کی اور اس سے پہلے چار سال فل کورٹ میٹنگ نہیں ہوئی، ادارے کی اہمیت چیف جسٹس پاکستان سے نہیں ہوتی بلکہ تمام ججز سے ہوتی ہے، اگر کسی کا کوئی اور ایجنڈا ہے تو پھر وہ صدر سپریم کورٹ بن جائے، ہم کسی کا دبا وبرداشت نہیں کریں گے، ہم نے وزیراعظم سے ملاقات انتظامی طور پر کی جس میں اٹارنی جنرل اور وزیر قانون بھی شریک تھے۔
صدر مملکت اور آرمی چیف کی ملاقات
آرمی چیف نے صدر مملکت سے ملاقات کی ہے اور اس ملاقات کے دوران دہشتگردی پھیلانے والے عناصر کے ساتھ سختی سے نمٹنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو خوش آئند ہے کیونکہ جب تک دہشتگردی کی عفریت کو جڑ سے اکھاڑ نہیں پھینکا جائے گا اس وقت تک معاشرے میں امن نہیں ہوسکتا اور اس مقصد کیلئے سختی درکارہے ، دہشتگردوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں کے ساتھ نمٹا جائے گا ، معاشرے میں اتنی جلد ی امن واقع ہوگا ، خبر کے مطابق صدر مملکت آصف علی زرداری سے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے ملاقات کی۔چیف آف آرمی اسٹاف نے صدر مملکت کو پاکستان کے صدر اور مسلح افواج کے کمانڈر کا عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دی اور صدر مملکت کی کامیاب مدت کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔چیف آف آرمی اسٹاف نے صدر مملکت کو دہشت گردی کے خلاف جاری فوجی آپریشنز سے آگاہ کیا اور روایتی خطرات کے خلاف آپریشنل تیاریوں پر بھی روشنی ڈالی۔ جنرل عاصم منیر نے بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے علاقوں سمیت ترقیاتی منصوبوں میں فوج کے کردار کے بارے میں بھی آگاہ کیا۔صدر مملکت نے پاکستان کی مسلح افواج کے مثالی کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ ریاست کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ میں فوج کی خدمات کلیدی حیثیت کی حامل رہی ہیں۔صدر مملکت کا قومی طاقت کے تمام عناصر کے ذریعے دہشت گردی کا بھرپور جواب دینے کے قومی عزم کا اظہار کیا۔صدر مملکت آصف زرداری نے اس موقع پر ایک مخصوص سیاسی جماعت اور اس کے چند افراد کی جانب سے ادارے اور اسکی قیادت کے خلاف محدود سیاسی مفادات کے حصول کیلئے لگائے گئے بے بنیاد اور بلاجواز الزامات پر شدید تشویش کا اظہار کیا اور رخنہ ڈالنے والے عناصر سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا عزم کیا۔دوسری جانب صدر آصف علی زرداری نے سنگاپور میں پاکستان کے ہائی کمشنر پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان کی سرمایہ کاری دوست پالیسیوں سے مستفید ہونے کی ترغیب دینے کے علاوہ سنگاپور کے کاروباری اداروں کے ساتھ دوطرفہ تجارت اور کاروباری روابط کے فروغ کے لیے کام کریں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پراسیسڈ فوڈ آئٹمز پولٹری، گوشت، سی فوڈ برآمد کرکے سنگاپور کے لیے غذائی سپلائی کا ایک مستحکم ذریعہ بن سکتا ہے۔صدر زرداری نے کہا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور زراعت کے شعبوں میں تعاون کو بھی فروغ دینا چاہیے۔ صدر مملکت نے رابعہ شفیق کو پاکستان کی ہائی کمشنر کے طور پر تعیناتی پر مبارکباد دی اور سنگاپور میں ان کے کامیاب اور نتیجہ خیز دور کی خواہش کی۔
پاکستانی معیشت کی بہتری کا امکان
معتبر عالمی مالیاتی خبر رساں ادارے بلوم برگ کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت بہتری کی جانب رواں دواں اور گامزن ہے اور انشاءاللہ ایک دن بہتری کی منزل کو چھولے گی ،یہ بات بات انہوں نے اپنی ایک رپورٹ میں کہی،رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی کہ شرح نمو میں اضافے اور معیشت نے ترقی دکھانا شروع کر دی ہے، رواں مالی سال کی نسبت آئندہ مالی سال میں شرح نمو میں دوگنا اضافے اور بتدریج بڑھوتری ہوگی۔ورلڈ بینک کی رپورٹ پر بلوم برگ نے تجزیاتی رپورٹ پیش کی ہے جس میں اگلے مالی سال میں مہنگائی کی شرح میں 11فیصد کمی کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کے نئے بیل آٹ پروگرام سے معاشی شرح نمو میں مزید تیزی اور استحکام آئے گا۔بلوم برگ رپورٹ کے مطابق گزشتہ 22 ماہ میں مہنگائی کی شرح پہلی بار سب سے کم 20.7 فیصد کی شرح پر آگئی ہے، دو سال کے بعد مہنگائی کی شرح میں کمی کا رجحان دیکھنے میں آرہا ہے، جولائی سے شروع ہونے والے مالی سال کے دوران پاکستان کو 24 ارب ڈالر کی بیرونی مالی مدد درکار ہوگی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے 16 ماہ کی حکومت کے دوران ملک کو معاشی ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے مشکل فیصلے کیے تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے