کالم

ہندوستان کی دوغلی خارجہ پالیسی

یہ امر انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ بھارت کے سب سے بڑے صوبے اتر پردیش کے سابق وزیر اعلی ٰ ” اکھلیش یادو“ نے 7اپریل کو ” غازی پور “ میں مختار انصاری کی موت پرتعزیت کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی اور مودی کے تضادات ساری دنیا کے سامنے آرہے ہےں تبھی تو امریکہ،کینڈا اور روس تک بھارتی خارجہ پالیسی کو بلواسطہ یا بلاواسطہ طور پر حرف تنقید بنا رہے ہےں ۔ مبصرین کے مطاق یہ بات تقریبا ہر ذی شعور بخوبی جانتا ہے کہ بھارتی حکمران قول و فعل کے بدترین تضاد میں مبتلا ہےں ان کے کہنے اور کرنے میں فرق اتنا واضح ہوتا ہے جسے عام سی سمجھ بوجھ رکھنے والا فرد بھی محسوس کرسکتا ہے ۔بھارتی خارجہ پالیسی بھی اسی ہندوستانی طرز عمل کی چلتی پھرتی مثال ہے۔ اس صورتحال کا جائزہ لیتے غیر جانبدار سفارتی حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ یوکرین کی حالیہ جنگ میں جس طور مودی سفارتی چال بازیوں سے کام لے رہے ہےں اس نے ایک بار پھر اس امر کو واضح کر دیا ہے کہ دہلی کا حکمران ٹولہ ایک طرف امریکہ اور مغرب کو اس خیام خیالی میں مبتلا رکھنا چاہتا ہے کہ وہ ان کا وفادار ساتھی ہے تو دوسری جانب روس کو بھی دھوکے میں رکھا ہوا ہے گویایوکرین جنگ کے حوالے سے ہندوستان کا نقطہ نظر اور رویہ ثابت کرتا ہے کہ ہندوستان امریکہ اور مغرب کا ناقابل بھروسہ ساتھی ہے۔ بھارت نے نہ یوکرین پر روسی یلغار کی مذمت کی اور نہ ہی امریکہ کی خواہش کے باوجود روس سے تیل کی بے دریغ خریداری بند کی حالانکہ بائیڈن انتظامیہ کے بین الاقوامی توانائی کے مشیر نے ہندوستان کو روس سے تیل کی درآمد کے خلاف خبردار بھی کیا تھا۔یوںمغربی دنیا سے بہتر تعلقات کے دعویدار بھارت کا دوہرا معیار ایک بار پھر سامنے آگیا۔مبصرین کے مطابق امریکہ سے قریبی اسٹریٹیجک شراکت داری کا دعویٰ کرنے والا بھارت کئی اہم مواقع بارہا پر اپنے اتحادی کو دغا دے چکا ہے۔ اس معاملے کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ امریکی کوششوں کے باوجود بھارت نے یوکرین پر روسی یلغار کی مذمت نہیں کی اور نہ ہی امریکہ کی خواہش کے باوجود بھارت نے روس سے تیل کی خریداری بند نہیں کی۔یاد رہے کہ یوکرین پر روسی حملے کے بعد امریکہ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرارداد پیش کی تھی قرارداد منظور تو ہوئی لیکن امریکہ کا اتحادی ہونے کے باوجود بھارت نے قرارداد پر رائے دہی میں حصہ نہیں لیا۔علاوہ ازیںبھارت اس سے پہلے روس کے افغانستان پر حملے کی مذمت کے امریکی مطالبے سے بھی نظریں چرا چکا ہے اورحالیہ روس اور یوکرین تنازع کے بعد امریکہ نے بار بار ہندوستان کو روسی تیل کی درآمد پر خبردار کیا مگر بھارت کی روس سے درآمدات کا سلسلہ برقرار تا حال پوری برقرار ہے۔ایک مصدقہ رپورٹ کے مطابق بھارت روس سے روزانہ 000،600 بیرل تیل درآمد کررہا ہے اور یوںہندوستان کی خریداری سے روسی خزانے کو کافی سہارا ملتا ہے۔یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ ایک روسی ماہر کے مطابق روس بھارت سے کمایا ہوا سرمایہ یوکرین جنگ میں استعمال کر رہا ہے اور دوسری طرف یورپ کا اتحادی بھارت بالواسطہ یوکرین کے خلاف روس کی مدد کررہا ہے۔یاد رہے کہ اس ضمن میں بائیڈن انتظامیہ کے بین الاقوامی توانائی کے مشیر نے ہندوستان کو روس سے تیل کی درآمد کے خلاف کئی بار خبردار کیا تھا مگر امریکی حکام کے انتباہ کے باوجود بھارت ٹھس سے مس نہیں ہوا جس سے یورپ میں بھارت کو لے کر خاصی حد تک غصہ پروان چڑھ چکا ہے۔فِن لینڈ میں قائم سینٹر فار ریسرچ آن انرجی اینڈ کلین ایئر(مرکز برائے صاف توانائی اور فضا) نے اس ضمن میں ہوش ربا انکشافات کےے ہےں جن کے مطابق روس نے گزشتہ دنوں میں تیل اور گیس کی برآمدات سے 100 بلین ڈالر کمائے،یہاں یہ امر دلچسپ ہے کہ روس کی تیل کی برآمدات کا بڑا حصہ بھارت درآمد کرتا ہے،گزشتہ سال مارچ میں بھارت کو روسی تیل کی درآمد 30 لاکھ بیرل تھی جو اپریل میں بڑھ کر 7.2 ملین بیرل ہو گئی ہے۔واضح رہے کہ مئی 2022 میں برآمدات کے 24 ملین بیرل تک پہنچنے نے مغرب کے لیے بجا طور پر خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی جسے لے کر مغرب میں بھارت کے خلاف اضطراب پایا جا تاہے۔یوکرین جنگ کے حوالے سے ہندوستا ن کا نقطہ نظر اور رویہ ثابت کرتا ہے کہ ہندو ستان امریکہ اور مغرب کا ناقابل بھروسہ ساتھی ہے۔ اسی تناظر میں چند مغربی سکالرز نے کہا ہے کہ بھارت بلاشبہ رقبے اور وسائل کے اعتبار سے ایک بڑا ملک ہے لیکن ذہنی مکاری کے حوالے سے خاصا پست ہے ۔ اسی بات کو ایک دوسرے یورپی سکالر نے India is a big country with a small "mentality” کہا ہے ۔سنجیدہ حلقوں نے اس تمام صورتحال کے پس منظر میں رائے ظاہر کی ہے کہ اس میں کوئی شک نہےں کہ دہلی کے حکمران ایک طویل عرصے تک مغرب اور امریکہ کے ساتھ ساتھ روس کو بھی استعمال کرنے میں کامیاب رہے ہےں لیکن قانون فطرت ہے کہ کوئی بھی شخص یا گروہ ہمیشہ کے لئے ساری دنیا کو دھوکے میں نہےں رکھ سکتا ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب دنیا پر بھارت خصوصا مودی سرکار کی اصلیت واضح ہونا شروع ہو چکی ہے تبھی تو کچھ عرصہ قبل جرمنی کی وزارت خارجہ کی ترجمان نے راہول گاندھی کو نااہل قرار دینے کے حوالے سے مودی سرکار کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا،اس کے علاوہ بھارتی ریاست راجستان کے سابق وزیر اعلیٰ اشوک گھلوت نے کہا ہے جب بی جے پی بھارت کو ہندو راشٹر بنانے کی بات کرئے گی تو بھارتی پنجاب کے سکھ کیوں خالصتان کے قیام کی بات نہےں کریں گے ۔مبصرین نے اس تمام صورتحال کو بھارت کے لئے خطرے کی گھنٹی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب بھی اگر بھارتی حکمرانوں نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو آنے والے دنوں میں عالمی امن کسی نئی آزمائش سے دوچار ہو سکتا ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے