کالم

مزدوروں کے حالات

یکم مئی ہر سال بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہےریلیاں نکلتی ہیں سیمینار ہوتے ہیں تقریریں ہوتی ہیں دل کی بھڑاس بھی نکلتی ہے اور پھر سال کے 364 دن مسلسل خاموشی کہ جیسے ہیں ویسے ہی رہیں کی کیفیت میں گزر جاتے ہیںنہ کوئی سننے والا نہ کوئی پوچھنے والا مزدور اپنا پسینہ اپنی قمیض یا کرتے کے گھیرے سے صاف کر کے پھر مزدوری پر لگ جاتا ہے کیونکہ شام کو اس نے اپنے ٹوٹے پھوٹے ایک یا دو کمرے کے مکان میں رہائش پزیر بیوی بچوں کے کھانے کےلئے کچھ لے کر جانا ہوتا ہے اگر وہ اپنے حقوق اور فلسفے کی بات کریگاتو اس کو مزدوری سے ہاتھ دھونا پڑیگا اسکا نتیجہ فاقہ کیونکہ جب تک وہ اپنی مزدوری نہیں کریگا اس وقت تک اس کی ہتھیلی پر رائج الوقت کرنسی نہیں ہوگی ان حالات میں پھر دھکے ہی دھکے کوئی اسکا حال پوچھنے والا نہیں ہوتا اسکی بیوی بچے فاقوں اور بیماری سے اللہ کو پیارے ہو جائیں تو اللہ کی مرضی اس میں کسی دوسرے کا عمل دخل کیا ہے کچھ بھی نہیں ہر سال جلسے جلسوس تقریریں نعرے پھڑکتے ہوئے جملوں سے سجے ہوئے بینرز بس یہی کچھ ہوتا ہے غریب مزدور کے حالات نہیںبدلتے پیدائش پر مانگے کے کپڑے اور موت پر مانگے کا کفن ۔ اس مہنگائی کے زمانے میں اسکی ماہانہ آمدنی بتیس ہزار روپے مقرر ہے ۔ ایمانداری سے بتائیں کیا اس رقم میں ایک فیملی جسکے کم سے کم افراد پانچ نفوس پر مشتمل ہوں گزراوقات کر سکتے ہیں ؟ کرایہ مکان اگر بجلی ہو تو اس کے بل کی ادائیگی بیماری کی صورت میں ادویات پر اٹھنے والا خرچہ کیا اس قلیل رقم میں پورا ہو سکتا ہے ہم انہیں اپنے جیسا انسان نہیں سمجھتے پالیسی اور قوانین بنانے والے قیمتی سوٹ پہن کر ائیر کنڈیشن کمروں میں اعلی کرسیوں پر بیٹھ کر انگریزی اور اردو میں حالات کا جائزہ لیتے ہیں اور پھر چند صفحوں پر بحث و تمحیص کا خلاصہ منٹس آف دی میٹنگ کی صورت میں بحیثیت ریکارڈ فائل کی نذر ہوجاتا ہے اللہ اللہ خیر سلا ۔ رات گئی بات گئی رات کی بات کا ذکر ہی کیا کے مصداق سفارشات آگے بڑھتی ہی نہیں غریب جو اپنے شب و روز محنت مشقت کے سہارے گزارتا ہے اپنی زندگی کمپرسی میں گزارتے گزارتے دوسرے جہان کے سفر پر چل پڑتا ہے اسکی فیملی کے حالات کوئی معلوم نہیں کرنا چاہتا کیونکہ اس کے لواحقین کو زندگی گزارنے کے لیے روز اتنے پیسے چاہییں کہ جس سے ان کے پیٹ کادوزخ بھر سکے کیا مزدوروں اور ان کی فیملی کے لیے ایسے شفا خانے قائم کیے گئے ہیں جہاں سے وہ طبی سہولتیں بوقت ضرورت حاصل کر سکیں ان کی زندگی محرومیوں اور ناکامیوں کی ایسی داستانیں ہیں جن کو سن کر آنکھیں پر نم ہو جائیں لیکن کیا کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ درد بھری کہانیاں سنتا رہے جس کا جو نصیب اسی طرح اسکی زندگی ہے اس میں کسی دوسرے انسان کا کوئی دخل نہیں ایسے ممالک جن کی معاشی حالات بہتر ہیں وہ اس طبقے کا خیال رکھنے کے قابل ہوتے ہیں لیکن جن کے ایام ہی قرض پر گزرتے ہوں وہ کیا قابل تعریف پالیسیاں بنائینگے اور کس طرح زندگی کی سہولتیں فراہم کریں گے اول خویش بعد درویش انہیں تو انتخابات کے ذریعے کامیاب ہو نے کی صورت میں اپنے اور اپنے تعلق داروں کا خیال کرنا ہوتا ہے مزدور اور انکی فلاح اور دیگر تمام امور طے کرنے کیلئے الگ محکمے ہیں انہیں چاہیے کہ بدلتے ہوئے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کام کریں ان دفاتر میں کام کرنے والے اعلی افسران کو گاڑیاں فراہم کی ہوئی ہوتی ہیں ڈرائیور اسکی تنخواہ اور پٹرول سب ادارے کے ذمے ہے لہذا انہیں چاہیے کہ فیلڈ میں جا کر مزدوروں کی مشکلات کو سنا کریں جہاں تک ہو سکے انہیں حل کریں اس عمل میں لیت و لعل سے کام نہ لیںبلکہ ان اداروں سے تعلق استوار کریں جو مسائل حل کرنے کیلئے باختیار ہوں بد قسمتی سے مزدوروں کی فلاح و بہبود کیلئے کام کم پبلسٹی زیادہ ہوتی ہے فوٹو سیشن اس کے علاوہ مغربی ممالک کی تقلید میں ہم نے اپنے اصولوں کو پس پشت ڈال دیا ہے ہمارے مزہب میں مزدوروں کی اہمیت اس قدر ہے کہ پسینہ سوکھنے سے پہلے اسکی اجرت دینے کا حکم ہے لیکن اس اصول پر کتنے لوگ عمل کرتے ہیں ملوں فیکٹریوں اور عام زندگی میں کام کرنے والے لوگوں کے حقوق کا نہ تو تعین ہوتا ہے اور نہ ہی ان پر عمل ہوتا ہے روتے پیٹتے ان کے دن گزر جاتے ہیں نسل در نسل اس طبقے کی یہی حالت ہے وہ دن کب آئینگے کہ جب ریاست ان کی صحیح معنوں میں ذمہ دار ہوگی اور فلاحی ریاست کہلائے گی ہمارے ملک کو معرض وجود میں آئے سات دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے ترقی کی منازل کا خواب چکنا چور ہوتا رہا حکومتیں سہانے خواب دکھاتی رہیں لیکن تعبیر کا دور تک نشان نہیں ملا آج یہ حالت ہے کہ سفید پوش بھی مہینہ عزت سے گزارنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے گھریلو حاخراجات کبھی ہزاروں میں تھے اب لاکھوں تک پہنچ چکے ہیں مزدور جو پہلے ہی محرومیوں کا شکار تھا موجودہ حالات میں کیسے دن گزارے سمجھ میں نہیں آرہا۔ اس وقت حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر سفید پوش طبقے کے کچھ افراد بھی ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو چکے ہیں ان سے جب پوچھا کہ تو جواب میں انہوں نے کہا کیا کریں مہینے بھر کی ضرورت پورا کرنے کے لیے آمدنی کم ہے دیگر ذرائع نہیں لہذا مجبورا مالی امداد کے لیے دوسروں سے درخواست کرنا پڑ رہی ہے یوں کہہ لیں کہ ہاتھ پھیلانا پڑ رہا ہے ان کے چہرے اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ پیشہ ور نہیں حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر عزت بالائے طاق رکھ کر ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو چکے ہیں تاکہ فیملی کی اشد ضروریات پوری ہو سکیں غریبوں کے بچے نہ تو تعلیم حاصل کر سکتے ہیں نہ طبی سہولت ان کی دسترس میں ہے نہ ہی مناسب رہائش نہ ہی مناسب خوراک طبی سہولتیں ان کے نصیب میں نہیں نسل در نسل اس طرح حسرتوں میں زندگی گزار کر اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں ان کی دنیا ہی اور ہے حسرت یاس میں گھری ہوئی غم کی ماری ہوئی اس معاشرے میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے صرف لچھے دار باتیں نہیں مستقبل کے سہانے خواب نہیں بلکہ عملی طور پر کچھ کرنے کی ضرورت ہے اب تو جان مال عزت کا بچانا بھی اس معاشرے میں مشکل ہوگیا ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملا ہو چکا ہے قانون اور آئین کی بالادستی صحیح معنوں میں ہو بحیثیت انسان امیر غریب میں فرق روا نہ رکھا جائے بنیادی سہولتوں کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ طبی سہولتیں بھی ہر شہری کے لیے ہونی چاہیں تاکہ طبقات میں تقسیم شدہ معاشرہ منظر عام پر نہ آ سکے بلکہ پیدائش سے لے کر موت تک ریاست اپنی ذمہ داریاں کو نبھائے طبقاتی تقسیم محرومیوں کی چادر نہ تان سکے مزدور ترقی اور خوشحالی کے لیے اہم کردار ادا کرنے والا عنصر ہے اسے جتنا مضبوط کریں اتنی خوشحالی آ سکتی ہے صرف یکم مئی منانے پر زور نہ دیں کچھ عملی تقاضے بھی پورے کریں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے