کالم

پاک چین تعلقات اور معروضی حالات!

وزیر اعظم پاکستان کا دورہ چین پاکستانی معیشت کیلئے کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔ اس دورہ کیلئے وقت بڑا اہم ہے۔ یہ بات مد نظر رکھنی چائیے کہ اس وقت عالمی سطح پر چین اور امریکہ کے مابین اقتصادی میدان میں کشمکش جاری ہے ، یہ جو ہمارے ہاں سیاسی رسہ کشی ہے یہ بھی اس عالمی کشمکش کا شاخسانہ ہے۔ اگر چہ امریکہ نے عالمی سطح پر جب بھی موقع ملا پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش کی ہے مگر ہمیشہ اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ پاکستانی قوم کو قومی اداروں پر اعتماد ہے اور پاکستان کی جغرافیائی حیثیت اور سی پیک منصوبے سے پاکستان کا اس خطے میں طاقت کا اندازہ ہوتا ہے کہ چین کا پاکستان پر کس قدر اعتماد ہے وزیر اعظم کے دورہ چین سے یہ تعلقات مذید مستحکم ہونگے ۔ اگر چہ عالمی سامراج نے ہمیشہ گہری چال چلی ہے اور پاک چائنا تعلقات کے درمیان رخنہ ڈالنے کی کوشش کی ہے مگر اسے ناکامی ہوئی، دشمن کا مقابلہ ہم تب کر سکتے ہیں جب قوم میں ہم آہنگی اور وحدت ہو، موجودہ حالات میں ملک سیاسی افرا تفری کا متحمل نہیں ہو سکتا ، معاشی استحکام کیلئے پر امن سیاسی ماحول ضروری ہے، ملک میں بیرونی سرمایہ کاری تب آئی گی جب ملک میں سیاسی استحکام ہوگااور آئین اور قانون کو بالادستی حاصل ہوگی۔ اس وقت جو معاشی اور سیاسی نقشہ ہمارے سامنے ہے یہ در اصل دو نظاموں کی جنگ کا نتیجہ ہے دونوں نظام کے درمیان رسہ کشی کے مناظر سامنے آرہے ہیں ۔ اور یہ ایک ایسی جنگ ہے جس کی نوعیت سرد جنگ کے دور سے مختلف ہے مگر اس کے نتائج بہت اہم ہونگے اور اس جنگ کو جیتنے کیلئے چین پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا ہے اور کسی بھی غلطی سے احتراز برتنے سے کوشش کر رہا ہے اور اپنے آپ کو جنگوں میں الجھانے کی بجائے اپنی معیشت کو مضبوط کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے اوراس کی یہ پالیسی کامیاب رہی ہے جبکہ امریکہ کی پالیسی تشدد پر مبنی ہے اور دنیا کے مختلف مقامات پر اس کو جنگوں کا سامنا ہے جو اس کی معاشی ناکامی اور بین الاقوامی سطح پر اس کی ساکھ کی خرابی کا سبب بن رہا ہے اگر چہ ایک طرف وہ چین پر انسانی حقوق کی پامالی کا الزام لگاتا ہے اور پاکستان پر بھی تنقید کرتا ہے مگر خود مجنونانہ پالیسیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور انسانی خون بہا میں مصروف ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے بہیمانہ کاروائیوں میں مصروف ہے حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ دہشت گرد کس کے پیدا کردہ ہیں؟اور یہ بھی کوئی راز نہیں کہ پہلے دہشت گردوں کو سامراجی کھیل کے طور پر بھیجا جاتا ہے اور پھر ان کا پیچھا کیا جاتا ہے اور اس کھیل میں ہزاروں بے گناہ لوگوں کو مروادیا جاتا ہے، دھشت گردی کے خلاف جنگ اور حالیہ اسرائیل فلسطین جنگ میں آپ امریکہ کا کر دار دیکھ سکتے ہیں۔زمانہ نے فی الوقت پلٹا کھایا ہے اور حالات سامراج کے مخالف جارہے ہیں اور ایسی ہوا چل پڑی ہے جو ہر گز امریکی مزاج کے موافق نہیں ہے معروضی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو چین ایک عالمی طاقت کے طور پر اپنے آپ کو منوالیا ہے اور اس کی معیشت امریکی معیشت کے ہم پلہ ہے اور امریکہ کو بھی اس کا احساس ہے اور یہ خوف بھی اس کو لاحق ہے کہ اگر چینی معیشت کی ترقی کی رفتار اسی طرح جاری رہی تو بہت جلد چین کے معاشی قد کھاٹ میں امریکی معیشت کے مقابلے میں اضافہ ہوجائیگا ۔ یقینا یہ صدی ایشیا کی صدی ہوگی۔ یورپی یونین بن سکتاہے تو ایشیاٹک فیڈریشن کیوں نہیں؟ اگر چہ امریکہ ہر ممکن طور پر چائنا کا راستہ روکنے کی کوشش کرتا ہے مگر اسے ناکامی کا سامنا ہے موجودہ معاشی جنگ میں امریکہ کو جن کھلاڑیوں سے مقابلے کا سامنا ہے وہ ناقابل شکست ہیں جو کھیل کھیلا جارہا ہے اس میں سامراج کی شکست یقینی ہے اور یہ امر بھی خوش آئند ہے پاکستان کی جمہوری قیادت اور عسکری قوتوں میںمکمل ہم آہنگی ہے اور مقتدر قوتیں وقت کے تقاضوں سے ہر گز غافل نہیں ہیں موجودہ حالات میں مایوسی نہیں بلکہ جدوجہد ،شعور کی بیداری اور اپنی سمت درست کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ جو راستہ واشنگٹن کو جاتا ہے اس میں پاکستانی قوم کیلئے رہنائی کا سامان ہر گز نہیں ہے یہ ماضی کا سبق بھی ہے اور تجربہ بھی۔وقت نے پلٹا کھایا ہے آج کی دنیا نے گلوبل ویلج کی شکل اختیار کر گئی ہے اور اس دور کے تقاضے بھی مختلف ہیں اب معیشت بھی گلوبل ہوگئی ہے اور سرحدوں کی رکاوٹیں بھی ختم ہوگئی ہیں عالمی منڈی میں وہ آگے وہ سب سے آگے ہوگا جس کا مال سستا ہے ہو اور اچھا ہو کیونکہ یہ منافع کا دور ہے آذاد تجارت میں چین نے اپنی اہمیت منوا لی ہے امریکہ نے چینیوں کو ہر ممکن روکنے کی کوشش کی اور ایک عرصہ تک چائنا کےساتھ جنگ لڑنے کی کوشش کی اورعر صہ تک امریکی کانگریس میں چین کے خلاف تجارتی اقدامات کے خلاف قانونی مسودے زیر گردش رہے اور علامی کساد بازاری کے بحران کے دوران دیگر اقدامات بھی اٹھائے گئے مگر وہ ناکام رہا اور چینی ثابت قدم رہے اور آج دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ چین امریکہ کے ساتھ برابری کے سطح پر آگیا ہے اور چین کی یہ ترقی نہایت برق رفتاری سے ہوئی ہے اور چین معاشی طور پر سب کو پچھے چھوڑ گیا ہے اور معاشی اور صنعتی میدان میں بہت آگے نکل گیا ہے اور اب وہ قت دور نہیں کہ چین کا معاشی قدوقامت امریکہ سے بڑھ جائیگا ۔ہم اس لیئے پسماندہ ہیں کہ یہاں گروہتوں نے جنم لیا ہے اور قومی شیرازہ بکھر گیا ہے ہر گرو ہ کا ایجنڈا مفادات کے گرد کھومتا ہے اور اس مفاد پرستی قومی ترقی کو نکیل لگادی ہے اور معاشرہ تتر بتر ہوگیا ہے سیاسی جماعتوں نے پریشر گروپ کی شکل اختیار کی ہے اور بلیک میلنگ کی سیاست کا عمل جاری ہے جس نے معیشت کے پہیے کو معکوس کردیا ہے اس دوران انقلاب کی آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں مگر مگر المیہ یہ کہ انقلاب جن کےخلاف آنا چائیے وہ انقلاب کی باتیں کرتے ہیں حالانکہ انقلاب برپا کرنے کیلئے انقلابی جماعت کا ہونا ضروری ہے جسکے ورکروں کی انقلابی اصولوں کے مطابق تربیت ہوئی ہو یہاں کونسی جماعت ہے جو جو ورکروں کی تربیت کرتی ہے بلکہ مشاہدہ ہے کہ یہاں تو جمہوریت کی رٹ الاپنے والوں نے سیاسی پارٹیوں کو گھر کی لونڈی بنایا ہوا ہوتا ہے اور پارٹیوں کے اندر بدترین آمریت قائم ہوتا ہے الا ماشاءاللہ ۔ ہمارے پڑوسی ملک چین نے یہ ترقی من حیث القوم کی ہے انفرادیت کی بجائے قومی ذندگی کو وہا اہمیت دی جاتی ہے اور یہ اجتماعیت ہی وہاں کی قومی ترقی کا راز ہے چین کی یہ ترقی ہمارے لیئے ایک مثال ہے اگر ہم نے ترقی کرنی ہے تو ہمیں نظریاتی آساس سے آشنائی حاصل کر کے رجعت پسندی کی بجائے ترقی پسندی کا راستہ اختیار کرنا ہوگا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے