کالم

قومی بجٹ اور عوام کی توقعات

قومی بجٹ اور عوام کی توقعات

تحریر !ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
11 جون کو اکنامک سروے اور 12جون کو بجٹ 2024-25 پیش کیا جائے گا۔ اس بار IMF کے 6 ارب ڈالر کے 4سالہ نئے پروگرام کیلئے مذاکرات جاری ہیں۔ IMF اپنی تمام شرائط بجٹ یعنی فنانس بل کے ذریعے منوانا چاہتا ہے جس کے تحت آنے والے بجٹ میں اضافی ٹیکسز، بجلی گیس کی قیمتوں میں اضافہ، پیٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس، سبسڈی کا خاتمہ، پنشن اسکیم میں ترامیم، ترقیاتی منصوبوں (PSDP) میں کٹوتی، زرمبادلہ ذخائر میں اضافہ، امپورٹ میں نرمی، اخراجات میں کمی، رئیل اسٹیٹ، زراعت اور ریٹیل سیکٹرز کو ٹیکس نیٹ میں لانا، خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں کی نجکاری، بجلی اور گیس سیکٹرز کے گردشی قرضوں اور کرنٹ اکائونٹ خسارے کو کنٹرول کرنا ہے۔ وفاقی حکومت کے سوشل سیکٹر کیلئے مختص کئے گئے فنڈز میں ہیلتھ سیکٹر میں 35 فیصد اور ایجوکیشن سیکٹر میں 62 فیصد کمی تشویشناک ہے۔ ایکسٹرنل سیکٹر بالخصوص بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کا زرمبادلہ کے ذخائر پر دبائو رہے گا جسے دور کرنے کیلئے ہمیں اپنی ترسیلات زر، ایکسپورٹ اور بیرونی سرمایہ کاری کو بڑھانا ہوگا۔ جولائی سے مارچ 2024 کے دوران ملک میں 1.3 ارب ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری اور 21 ارب ڈالر کی ترسیلات زر آئی جبکہ ایکسپورٹ 23 ارب ڈالر رہی جس سے اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر 9 ارب ڈالر اور مجموعی ذخائر 14 ارب ڈالر تک پہنچ گئے۔
ایف بی آر کومالی سال 2023-24 میں 9415 ارب روپے کا ہدف حاصل کرنے کی توقع ہے جس کی بنیاد پر آئندہ مالی سال 2024-25 میں ریونیو وصولی کا ہدف 12900 ارب روپے تجویز کیا گیا ہے جس کیلئے حکومت کو 1500 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے ہوں گے جس میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں 5 کروڑ روپے مالیت کی جائیداد پر 3 فیصد، 7 کروڑ روپے پر 4 فیصد اور 10 کروڑ سے زائد مالیت کی جائیداد پر 7فیصد ٹیکس جائیداد فروخت کرنے والے سے وصول کیا جائیگا۔ ان جائیدادوں پر ایک خاص مدت کے بعد فروخت کرنے پر کیپٹل گین ٹیکس معاف تھا لیکن اب مدت سے قطع نظر کیپٹل گین ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ وفاقی حکومت کی موجودہ پنشن اسکیم کا بوجھ ناقابل برداشت ہوچکا ہے۔ حکومت آئندہ بجٹ میں ایک سے زیادہ پنشن پر پابندی اور ٹیکس کے علاوہ دیگر ترامیم سے اس کے دائرہ کار کو کم کرنا چاہتی ہے۔ اس سال بجٹ میں تنخواہوں میں 15سے 20فیصد اضافہ متوقع ہے۔ اسٹیٹ بینک کی سخت مالیاتی پالیسی کے باعث افراط زر یعنی مہنگائی کی شرح جو 35فیصد تک جاپہنچی تھی، گزشتہ دو سال میں کم ہوکر مئی میں 11.7 فیصد پر آگئی ہے اور افراط زر میں کمی کے پیش نظر اسٹیٹ بینک اپنے ڈسکائونٹ ریٹ 2فیصد کم یعنی 20 فیصد کرسکتا ہے لیکن بزنس کمیونٹی اسے سنگل ڈیجٹ دیکھنا چاہتی ہے۔کسی بھی ملک کے ترقیاتی منصوبے (PSDP) اس ملک کی معاشی گروتھ تیز کرنے اور نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں اور معیشت کا پہیہ تیزی سے چلتا ہے لیکن بدقسمتی سے حکومت میں ترقیاتی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کیپسٹی نہیں۔ رواں مالی سال 2023-24 میں بجٹ میں 960ارب روپے مختص کئے گئے تھیجن کو کم کرکے 746 ارب روپے کردیا گیا تھا جس میں سے صرف 40 فیصد یعنی 379ارب روپے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کئے جاسکے۔ اس سال ترقیاتی بجٹ 1220 ارب روپے تجویز کیا گیا ہے لیکن حکومت کی گزشتہ برسوں کی کارکردگی اور مالی وسائل دیکھتے ہوئے IMF نے PSDP میں کٹوتی کا مطالبہ کیا ہے۔ حکومت نے کرنٹ اکائونٹ خسارے پر کافی حد تک کنٹرول کیا ہے جو ریکارڈ 8 فیصد کی بلند ترین سطح سے کم ہوکر 2024 میں GDP کے 0.7 فیصد تک آگیا ہے جبکہ مالی خسارہ GDP کا 3 فیصد رہا۔ اسی طرح تجارتی خسارے میں بھی رواں سال 15 فیصد کمی ہوئی جو گزشتہ سال کے 25.6 ارب ڈالر سے کم ہوکر 21.7 ارب ڈالر پر آگیا ہے ۔
قارئین! حکومت، ملکی معیشت کی Micro Economic Stability کیلئے اقدامات کر رہی ہے جس کے بعد ہم تیز معاشی گروتھ کی طرف جاسکتے ہیں۔ ملکی GDP گروتھ کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ 2021 میں ہماری GDP 5.8 فیصد، 2022 میں 4.7 فیصد، 2023 میں 0.21 فیصد رہی جبکہ 2024 میں 2 فیصد اور 2025 میں 2.3 فیصد کا ہدف ہے۔ ہمیں معاشی بحالی کیلئے تیز جی ڈی پی گروتھ کی ضرورت ہے۔ رواں مالی سال پاکستان کی معاشی گروتھ میں بہتری کی وجہ ہمارا زرعی سیکٹر ہے جس کی گروتھ 5 فیصد رہی۔ بینکوں کے ایگری کلچر کریڈٹ میں بھی 33.6 فیصد اضافہ ہوا۔ کاٹن کی فصل میں 108 فیصد، چاول 35 فیصد، گیہوں 6.7 فیصد، مکئی 5.6 فیصد، لائیو اسٹاک اور فشریز 4.3 فیصد رہی جبکہ بڑے درجے کی صنعتوں کی کارکردگی قدرے بہتر رہی ۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اس کے مقامی اور بیرونی قرضے ہیں جو بڑھ کر 8100 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں اور وفاقی ٹیکس ریونیو میں اس کی ادائیگی 51 سے بڑھ کر 81 فیصد تک پہنچ چکی ہے جو ایک لمحہ فکریہ ہے ۔ عوام اور بزنس کمیونٹی کی حکومت سے توقعات ہیں کہ آئندہ بجٹ میں بجلی گیس کی قیمتیں، سیلز اور انکم ٹیکس کی شرح کم ہو اور انہیں ریلیف دیا جائے لیکن موجودہ حالات میں ایسا ممکن نظر نہیں آتا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے