کالم

اقتصادی سروے اور معاشی صورتحال

بزرگوں سے سنتے آئے ہیں کہ باطونی انسان عملی زندگی میں انتہائی ناکام ہوگا جبکہ دنیا میں جتنے بھی انقلابی فیصلے کئے وہ کم گواورمیچیورلوگ ہیں۔پل میں تولا،پل میں ماشہ والی شخصیت کبھی لیڈرنہیں ہوسکتی اور اِس کی مثال چند سیاسی بونے ہیں جنہوں نے اپنی ضد،انا،ہٹ دھرمی کی وجہ سے وطن عزیز کوبھی نقصان پہنچانے سے گریز نہ کیا لیکن اگر بات کی جائے صدر مسلم لیگ ن اور سابق وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف کی جوانتہائی دھیمے لہجے،کم گواور خوبصورت شبدوں پر گفتگو کے حوالے سے اپنا منفرد مقام رکھتے ہیں نے کبھی فضول گوئی اور بے ہودہ گفتگو نہیں کی،میاں صاحب کی سب سے بڑی خاصیت جوانہوں دیگر سیاستدانوں سے منفردکرتی ہے کہ وہ کوئی بھی کام بغیر مشاورت کے نہیں کرتے چاہے پارٹی کے معاملات ہوں یاحکومتی معاملات اِس حوالے سے صدراسلامی جمہوریہ پاکستان آصف علی زرداری اورمیاں نوازشریف میں یکساں خوبی ہے کہ دونوں معاملات کولے کر چلنے والے ہیں اور سیاست تونام ہی گفت وشنید کا ہے۔اگر بات کی جائے وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان محمد شہبازشریف کی تو دنیاانہیں شہبازسپیڈکے نام سے جانتی ہے گزشتہ دِنوں دورہ چین کے موقع پر چینی قیادت نے بھی وزیر اعظم محمد شہبازشریف کواِن کے کامیاب ادوار وزارت اعلی اور ترقیاتی کاموں کی بدولت شہبازسپیڈکاذکر کیا جہاں دونوں جانب سے مسکراہٹوں کا تبادلہ خیال بھی ہوا۔وزیر اعظم محمد شہبازشریف کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ دِن رات ملک کیلئے کام کرنے پریقین رکھتے ہیں موجودہ بہتر ہوتی معاشی صورتحال وزیر اعظم اور اِن کی ٹیم کی دِن رات کوششوں کاہی نتیجہ ہے۔گزشتہ روز بجٹ سے قبل وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان محمد شہبازشریف نے صدر مملکت آصف علی زرداری سے ملاقات کی جس میں ملک کی مجموعی معاشی اور مالی صورتحال پرتفصیلی گفتگو کی گئی،وزیر اعظم نے صدر مملکت کو حالیہ دورہ چین کے بارے میں بھی آگاہ کیا،صدر مملکت نے وزیراعظم کو ملکی ترقی اور معاشی اہداف کے حصول میں تعاون کی بھرپوریقین دہانی کرائی۔دوسری جانب وفاقی وزیر خزانہ و محصولات سینیٹر محمد اورنگزیب نے جاری مالی سال24۔2023 کے اقتصادی سروے کے اجرا کرتے ہوئے میڈیا کو تفصیلی بریفنگ دی،وزیر خزانہ نے کہا کہ جاری مالی سال کے دوران آئی ایم ایف، عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے اندازوں کے برعکس پاکستان کی اقتصادی ترقی کی شرح 2.4فیصد بڑھی، جاری مالی سال کے دوران پاکستان کی معیشت کا حجم11 فیصد اضافہ کے بعد 338 ارب ڈالر سے بڑھ کر 375 ارب ڈالر ہو گیا ہے اسی طرح فی کس آمدنی 129 ڈالر کے اضافہ کے بعد 1680 ڈالر ہو گئی ہے جبکہ مہنگائی کی شرح 11.8فیصد ریکارڈ کی گئی۔وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ مالی سال کے اختتام پر جی ڈی پی کی شرح 0.2 فیصد تھی، روپے کی قدر میں 29 فیصد کی کمی ہوئی تھی جبکہ ہمارے پاس صرف دو ہفتوں کا امپورٹ کور تھا، ان مشکل حالات میں ہم نے نئے مالی سال کا آغاز کیا تھا، اس وقت ہمیں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے پروگرام کی ضرورت تھی کیونکہ اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی پلان بی نہیں تھا، وزیراعظم شہباز شریف نے بہترین اقدامات کئے اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ سٹینڈ بائے معاہدہ کے ذریعے معیشت کے استحکام کی بنیاد رکھی، اگر یہ معاہدہ نہ ہوتا تو ہم معاشی اہداف حاصل نہیں کر سکتے تھے، وزیر خزانہ نے کہا کہ جاری مالی سال کے دوران بڑی صنعتوں کی پیداوار میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کی بنیادی وجہ بلند شرح سود اور توانائی کی عدم مساوات تھی تاہم زراعت کے شعبہ نے نمایاں ترقی کی اور ہم نے بمپر فصلیں حاصل کیں، ڈیری اور لائیو سٹاک کے شعبہ میں بھی نمایاں نمو ہوئی ہے، زراعت اب بھی ہمارا اہم ہدف ہے، انہوں نے کہا کہ مالیاتی سطح پر بھی مثبت پیشرفت ہوئی ہے، ایف بی آر کی محصولات کی وصولی کی شرح میں 30 فیصد کا نمایاں اضافہ ہوا ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی، پرائمری سرپلس میں صوبوں کا بھی اچھا کردار رہا جس کا کریڈٹ صوبوں کو ملنا چاہئے، جاری مالی سال کے آغاز پر ہمارا اندازہ تھا کہ حسابات جاریہ کے کھاتوں کا خسارہ 6 ارب ڈالر کے قریب رہے گا تاہم سال کے اختتام پر یہ 200 ملین ڈالر کے لگ بھگ ہو گا جو ایک بڑی کامیابی ہے، گذشتہ تین ماہ کے دوران حسابات جاریہ کے کھاتوں کا توازن فاضل رہا ہے،وزیر خزانہ نے کہا کہ ترسیلات زر میں بھی نمایاں بہتری ہوئی ہے، ملکی کرنسی میں استحکام آیا ہے، کرنسی کے استحکام میں نگران حکومت کی جانب سے انتظامی اور سٹیٹ بینک کی جانب سے ڈھانچہ جاتی اقدامات نے کلیدی کردار ادا کیا، جن بینکوں کے پاس بوتھ موجود تھے ان کی تعداد بڑھانے جبکہ جن کے پاس بوتھ نہیں تھے انہیں بوتھ کھولنے کی ہدایات جاری کی گئیں، سٹہ بازی اور قیاس آرائیوں کے خاتمہ کیلئے اقدامات کئے گئے، وزیر خزانہ نے کہا کہ مالی سال کے آغاز پر زرمبادلہ کے حوالے سے پاکستان ڈیفالٹ کے دہانے پر تھا، اس وقت سٹیٹ بینک کے پاس 9ارب ڈالر سے زائد کے ذخائر ہیں جو 2 ماہ کے امپورٹ کور کیلئے کافی ہیں، اس کا کریڈٹ بھی سٹیٹ بینک کو جاتا ہے۔اس موقع پر وزیر مملکت برائے اقتصادی امور علی پرویز ملک کا کہنا تھاکہ معیشت میں استحکام اور جو اعتماد نظر آ رہا ہے یہ ان اقدامات کا نتیجہ ہے جو وزیراعظم شہباز شریف نے لئے ہیں، ہماری پوری توجہ معاشی استحکام کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا ہے تاکہ معیشت دوبارہ کمزوری کی طرف نہ جائے، وزیراعظم شہباز شریف نے واضح ہدایات جاری کی ہیں کہ معاشی طور پر کمزور طبقات پر کوئی بوجھ نہ ڈالا جائے، حکومت معیشت کو دستاویزی بنا رہی ہے، نان فائلرز کو فائلرز بنانے کیلئے اقدامات ہو رہے ہیں، تمام پاکستانیوں کو اپنی آمدنی اور حیثیت کے مطابق پاکستان کی ترقی کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا، ہمیں ڈھانچہ جاتی فالٹ لائن کو درست کرنا ہے۔بجٹ سے قبل اقتصادی سروے کی مثبت رپورٹ،صدراسلامی جمہوریہ پاکستان آصف علی زرداری اور وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان محمد شہبازشریف کی ملاقات،وزیر اعظم کے بیرونی دورے،سی پیک کے دوسرے مرحلے کے آغاز سمیت تمام تر اقدامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ حکومت کی بروقت کوششوں سے معاشی صورتحال بہتری کی جانب گامزن ہوچکی ہے اور مالی سال کا بجٹ نہ صرف عوام دوست بجٹ ہوگا بلکہ اِس میں غریب طبقہ کوریلیف بھی دیاجائے گا۔مسائل ہیں لیکن اِن کا حل بھی موجود ہے بس ضرورت ہے تو اتحاد کی یگانگت کی اور بحثیت قوم ایک ہونے کی امید واثق ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت عوام کو بھرپور ریلیف دینے میں کامیاب ہوگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے